Thursday, March 5, 2009

بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار

بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار
محمد حمید شاہد

میں نے اس موضوع کو کورے کا غذ پر لکھا ہی تھا کہ سارے وجود میں سنسنی دوڑ گئی ۔ خود پر جبر کرکے بدن میں تیرتی اس سنسناہٹ کو کا ٹا تو کھلا کہ یہ موضوع سیدھے سبھاﺅ کُھلنے کا ہے ہی نہیں ۔میں نے عنوان کا سوانگ بھرے اِس آدھے جملے کے آگے استفہامیہ علامت لگائی اور اِسے کھلا بھی رہنے دیا ‘ہر دو صورتوں میں یہ میری چھاتی چاٹے بنا ٹلتا ہی نہ تھا‘ سو میں نے یہ حیلہ کیا ہے کہ اس آدھے جملے کو بھی دو نصف حصوں میں بانٹ لیا ہے ۔ ایسا کرنے سے بدلتی ہوئی دنیا کی دہشت الگ ہو گئی ہے ۔ ادب کا کوئی کردار اس دہشت کے منظر میں ہے یا نہیں؟ اس سوال کو میں نے الگ کونے میں لڑھکا دیا ہے ۔
بدلتی ہوئی دنیا کیاہے ؟اور اس کے بدلنے کا پیمانہ کہاں سے میسر آتا ہے؟ کسی زمانی پڑاﺅ کے بیچ‘ لکیر ڈال کرسوچیں گے تو کچھ پلے نہ پڑے گا تو یوں کرتے ہیں کہ زمانے کو بدلتی زندگی سے تعبیر دے لیتے ہیں اور زندگی کو اس ( Litmus) لٹمس سے جو ایسڈ (acid solutions)میں پڑتا ہے تو سرخ ہو جاتا ہے اور الکلائین (alkaline solutions )میں ڈوبتا ہے تو رنگ بدل کر نیلا ہو جاتا ہے۔ رنگ بدلتی اس زندگی کو سمجھنے کے لیے میں نے پانچ دائرے لگائے ہیں یہ پانچوں دائرے اپنے اپنے مراکز پر گھومتے تو ہیں ایک دوسرے کو کاٹتے اندر تک گھستے اور جزوی طور پر منطبق بھی ہوتے ہیں اور جس علاقے میں ایک دائرے کا دوسرے پر انطباق ہوتا ہے وہیں ان کے بیچ ایک انفساخ کو بھی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔

بدلتی ہوئی زندگی پر ایک نظر

سب سے پہلے دائرے کے اندر میں نے ’فرد فرد زندگی‘ لکھا ہے اور اسے انسانی زندگی کی ابتدا ءجانا ہے جب ہر فرد اپنی ذات میں کلی طور آزاد تھا آپ اسے انسانی تہذیب کا اولین بیج کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرے دائرے میں قبائلی زندگی لکھ لیجئے اور یہ تب کی بات ہے جب انسان نے اپنی ضرورتوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرلیا تھا۔ تب انہی انسانوں میں سے ایک اُن سب پر بااختیار ہوا اور اتنا اختیار حاصل کرلیا کہ وہی آزاد تھا اور پورا قبیلہ اس کا غلام ۔ان دو دائروں کے درمیان وہ انطباقی علاقہ پڑتا ہے جہاں زندگی جفت کے جوہر سے آشنا ہوئی تب عورت اور مرد ایک دوسرے پر حاوی نہیں تھے بلکہ وہ اپنے آزاد اشتراک سے زندگی کے تسلسل کے امین تھے۔ حکمرانی کا لوبھ تو قبیلوں کے پیٹرن بننے کے بعد انہوں نے سیکھا ۔قبیلوں کے اتصال اور مخاصمت کے عمل سے معاشرتی دائرہ وجود میں آیا۔ یہ وہ تیسرا دائرہ ہے جو دوسرے دائرے کے مشترکہ علاقے میں خاندان کی شباہت مکمل کرتا ہے اور چوتھے دائرے پرمنظبق ہوتے وقت تہذیب اور روایت کی نمود اور بالیدگی کے سوال سے جڑجاتا ہے ۔چوتھے دائرے میں تہذیبی زندگی کو جدید سائنسی زندگی کی جانب جست لگاتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس جست کی غُلبُلا میں انسانیت کے قدم تہذیب اور روایت کی سرزمین سے اُکھڑ گئے ہیں اور یہ ایسی زندگی ہے جوچوتھے اور پانچویں یعنی آخری دائرے کے مشترکہ علاقے میں پڑتی ہے ۔ جسے میں نے آخری دائرہ کہا ہے اس میں صارفی زندگی یا پھر معاشی بالادستوں کی چیرہ دستیوں کا زمانہ کہہ لیں.... اور صاحبویہی ہمارا بدلا ہوا زمانہ ہے۔
ّ اس صارفیت یا consurmerism والے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں چند ایسی ملٹی نیشنل کمپنیوں( جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سو کے لگ بھگ بنتی ہے ) کے ہاتھ سرمائے کا ارتکاز ہو گیا ہے جو اسے ضرب دیئے چلے جانے پر قادر ہیں۔ پیسہ پیسے کی افزائش کرتا ہے سو افزائش تو خوب ہوئی رہی ہے مگر ظلم یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ان کا مذہبی اور نسلی تعصب بھی پوری طرح بیدار‘متحرک اور کارفرما رہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر بہت سے فیصلے انہی کی ایما پر ہوتے ہیں حتی کہ واحد عالمی قوت بن جانے والے ملک کے اپنے داخلی سیاسی فیصلے ہوں یا بین الاقوامی تعلقات ۔پیدا واری مراکز پر قبضہ ہو یا نئی نئی مارکیٹوں کی دریافت اورتنظیم۔ حربی قوت کے استعمال کے فیصلے ہوں یا دست نگرحکومتوں میں ردوبدل کے معاملے ۔جمی جمائی تہذیبوں کو بنیاد پرستی کے طعنے سے زچ کرنے اور ان کا رخ موڑنے کا معاملہ ہو یا روایت اور عصری زندگی کے تال میل سے قوت پانے والے ادبی متون کو تخلیق کی بجائے فقط اسٹریکچر بنا دینے کا معاملہ ‘ہر کہیں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے تعصبات پوری طرح دخیل دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ایڈورڈ سعید نے اپنے مضمون میں ایک سیاسی تجزے کا حوالہ دیتے ہوئے نشان زد کیا تھاکہ عالمی سرمایہ کاری کے اس زمانے میں سرحدیں کمزور ہو گئی ہیں ‘الگ قومی شناخت پر چوٹ لگائی گئی ہے۔ معاشروں اور قومی اداروں کو داخلی سطح پر عدم استحکام سے دوچار کیا گیا ہے۔ مقامی ثقافتیں تہذیبی شناخت سے کٹ کر سرمائے کی اقلیم میں داخل ہو گئی ہیں۔ انفرادی میلانات کو قومی میلانات پر ترجیح دی جاتی ہے اور دنیا بھر کے پانچ میں سے صرف ایک انسان کو سرمائے کی بڑھوتری کے آلہ کار کے طور پر چن لیا گیا جب کہ چار بٹا پانچ دنیا ایسے اپاہج کی صورت ہو گئی ہے جس کا ایک ہاتھ آگے ہوتا ہے اور دوسرا پیچھے۔ صاحبو اسی اپاہج دنیا میں میں بھی رہتا ہوں اور آپ بھی اور وہ بھی جو ہم میں سے ہیں مگر ادھر سے آنے والی روشن خیالی اورعالمی ثقافت کے فروغ کے لیے چن لیے گئے ہیں ۔
تو معاملہ یہ ہے کہ میرے ہاں تو بدلے ہوئے زمانے کی کچھ ایسی تصویر بنتی ہے۔ میں نے اس تصویر کو اپنے ایک افسانے میں گوگول کے ہاں بننے والی اس نامکمل رہ جانے والی تصویر کا سا قرار دیا تھا جس کی شیطانی آنکھوں کو دیکھتے ہی ابکائی آجاتی تھی ۔اس تصویرکی شیطانی آنکھوں میں بلا کی چمک ہے اس چوندھ میں تہذیبی زندگی کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے یوں اب ہم عنوان کے دوسرے حصے سے جڑ جاتے ہیں کہ اس سمٹتے دائرے میں ادب کیا اپنی سانسوں کو بحال رکھ پائے گا یا یہ بھی بدلتے ہوئے زمانے کے سب سے کارگر حربے یعنی اشتہاریت اور صارفیت کا لقمہ بن جائے گا۔
یہیں سارتر کی ایک بات یاد آتی ہے اس نے لکھا تھا کہ
” امریکہ میں آپ سڑک پر اکیلے نہیں رہ سکتے ‘دیواریں تک آپ سی باتیں کرتی ہیں دائیں بائیں آپ کو تختوں پر لگے اشتہار‘ منور سائن بورڈ اور دکانوں کی بڑی بڑی آراستہ کھڑکیاں نظر آئیں گی جن میں ایک تو بڑی سی تصویر ہوتی ہے اور کچھ اعداد وشمار ۔ ان تصویروں میں آپ دیکھیں گے کہ ایک پریشان حال عورت ایک امریکن سپاہی کو اپنے ہونٹ پیش کر رہی ہے ۔ یا ایک ہوائی جہاز کسی شہر پر بمباری کر رہا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہوگا ”بم نہیں‘ انجیل“
سو یوں ہے کہ اب منہ پھاڑ کر اور سنجیدگی سے سوچے بنا ‘نصاب بدلنے کی بات ہوتی ہے ‘ روشن خیالی کا درس دیا جاتا ہے ‘ کھلی اور بے مہار ثقافتی پالیسی متشکل ہوتی ہے۔ کچھ ہم بدل چکے ہیں باقی کا کام جدید تر انفارمیشن کا سیلاب آسان بنا رہا ہے ۔ ہونٹوں ‘ بموں اور اشتہارات کی نفسیات نے ہماری تہذیبی روایت کو اتنے چرکے لگائے ہیں کہ ادبی سرگرمی کو سنجیدہ تخلیقی اور تہذیبی عمل سمجھنے کی بجائے ایک ثقافتی سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے‘ایسی سرگرمی جس کے مارکیٹ میں دام لگتے ہیں اورجس کے ذریعے صارفیت کے اس زمانے میں ساکھ بنائی جاسکتی ہے۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ ادب کا اگر کوئی کردار اس زمانے میں ہے تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اس زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنا نہیں بلکہ اس کے منہ زور تھپیڑوں میں اپنی تہذیبی شناخت سے جڑے رہنے کے اصرار ہی سے بنتا ہے یہی طرز عمل ہمیں اور ہمارے ادب حتی کہ تمام انسانی تہذیبی مظاہر کوصارفیت سے بچا سکتا ہے ۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment