Saturday, October 27, 2012

ساقی فاروقی کی نظم خالی بورے میں زخمی بلاکے حوالے سے منعقدہ حاشیہ کے جلسے میں صدارتی خطبہ


  • احباب حاشیہ
    میں سب سے پہلے حاشیہ کے تمام اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ایک بار پھر وہ جان دار اور پر از معنی مکالمہ قائم کرنے میں کامیاب رہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جناب ساقی فاروقی کی نظم" خالی بورے میں زخمی بلا" پر ہونے والی یہ گفتگو جدید نظم کی تفہیم میں ایک اہم باب کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔ اب مجھے بہ طور صدر کچھ کہنا ہے کہ حاشیہ کی یہی روایت ہے ، اور یہ جانتے ہوئے ،کہ نظم پر بہت کچھ کہا گیا ؛ اتنا کچھ کہ کہنے کو شاید ہی کچھ بچا ہو، مگر پھر بھی ایک عدد صدارتی خطبہ" عطا " کرنا ہے ۔ سو اس باب میں اس "اطائی " کی گزارشات قبول فرمائیے ۔

    اپنی بات کہنے سے پہلے مجھے صدر کی حیثیت سے اس مکالمہ کے فاضل شرکا کی کاوشوں کو سراہنا ہے اور بہ طور خاص ان مقامات کو نشان زد کرنا ہے جنہیں بہت اہم سمجھتا ہوں ۔ میں اعتراف کر چکا ہوں کہ نظم پر مکالمہ کے ابتدائیہ ہی میں ایک سلیقے سے گنجائشیں رکھ دیں گئیں کہ بات کسی ایک رخ پر ہی نہ چلے ، تفہیم کے تمام امکانات کو دیکھا جائے۔ یوں جو معنیاتی سطح پر متن کی جو پرتیں ہمارے سامنے آتی ہیں انہیں اس طرح مقتبس کیا جا سکتا ہے۔

    یہاں خالی بورا قید خانہ ہو جانے والی دنیا کا سا ہو گیا ہے۔ ایسی دنیا جس میں ہر نفس کا انجام بورے میں بند بلے کی طرح موت ہے ۔ گویا نظم بتانا چاہتی ہے کہ ہر انسان کا مقسوم یہی موت ہے۔ اس طرح یہ مضمون اردو اورفارسی شاعری کی عظیم روایت سے جڑ جاتا ہے۔

    نظم کی تفہیم کی ایک صورت تصوف اور ویدانت سے جوڑ کر بھی نکالی گئی۔ بہ طور خاص جب تصوف سے جڑے ہوئے معنی سجھائے جارہے تھے تو میں نے گزارش کی تھی کہ اس رُخ سے نظم کو شاید پہلی بار دیکھا جا رہا تھا، نظم کو بھی اور اس کے کردار جان محمد خان کو بھی۔ ساقی فاروقی کا بھی کہنا ہے کہ یہ والی توجیہ خود ان کے لیےبھی انکشاف سے کم نہیں تھی ۔ خیر شاعر پر اپنی نظم کے سارے معنی منکشف ہو جائیں یہ لازم بھی نہیں ہے۔ تاہم یہ شاعر نے مانا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ’یہ تمام باتیں شاعر کے خون، اس کی نشو ونما، اس کے لا شعور اور شعور میں کہیں نہ کہیں موجود رہی ہوں گی۔‘

    آدمی اور انسان ہو جانے کی بابت خود شاعر نے اشارہ کیا اور لگ بھگ اس سے جڑی ہوئی ہوئی تفہیم میں آدمی کے انسان ہونے کے لیے اس کے عابد، زاہد اور عارف ہو نے کو اس باب میں ایک اہم منزل کے طور پر شناخت کیا گیا ہے ۔ میں کہہ آیا ہوں کہ اس طرح خالی بورے کا تابوت بن جانا اور زخمی بلے کااس تابوت کی تنہائی سے لپٹ کر سو جانا اور پانی پانی ہو جانا، محض خان محمد جان کی ننگی پیٹھ پرآگ جلانے اور انگارے دہکانےاور جدوجہد کے خونیں پھول کھلانے والے کی کہانی نہیں رہتی ۔ اب جان محمد خان نامی کردار پر منکشف ہو چکا ہے کہ حیاتِ انسانی بنفسہ اپنا تحفظ محض جسم اور وجود کے سہارے نہیں کر پائے گی، اسے وہ علم اور معرفت درکار ہے جس سے زندگی کی اذیت سے معنی چھلک پڑیں ۔ جان محمد خان اپنے پہچان میں نہ آنے والے خالی بورے کی پہچان اسی قرینے سے ہوتی ہے اور اس سفر کی بھی جو ہر گز آسان نہیں ہے۔

    جان محمد خان اور زخمی بلے کو ایک ہی ہستی کے دو روپ بنا کر بھی نظم کو سمجھا گیا،نیک طینت اوراس کی ہمزاد گھناؤنی روح کی صورت میں۔ اور پھر سگمنڈ فروئڈ کی اِڈ، ایگو اور سپر ایگو کے ساتھ بھی جوڑاگیا ۔ایسے میں جان محمد خان سپر ایگو کا نمائندہ ہوا اور بورے میں بند زخمی بلا اڈ کا۔

    ایک اور جہت سے نظم کے پگڈنڈی پر تالاب کی جانب رواں کردار جان محمد خان کا سفر انسانی ارتقا کا سفر ہو جاتا ہے وہ اپنی جبلت سے نبرد آزما ہے۔ اور یہ اس کردار کا مثبت روپ ہے کہ وہ روسو کا ’’دی سیوج مین‘‘ بننے نکلا ہے گویا بورا اور اس میں بند بلا روح کا ایسا نقاب ہو جاتے ہیں جسے نوچ کر پھینک دینے کے بعد ہی اپنی اصل کو پا سکتا ہے۔

    جب ہمارے ایک فاضل دوست نے، اس نظم کو اس کہانی کی صورت دیکھا جس میں برا کرنے والے کا انجام بھی برے نتیجے کی صورت لازم ہو جاتا ہے ۔ ایک متکلم کی نظر سےجان محمد خان اور زخمی بلے کے کردار کو دیکھا جائے تو نظم کی اخلاقی اور نظریاتی جہت اور نمایاں ہو جاتی ہے ۔ ایسے میں، چاہے نظم نگار اپنی عام زندگی میں خود کو کتنا ہی شوخ ، چنچل ، ریاکار ، پاپی ظاہر کرے، نظم کے متن میں ایک پختہ ایمان اور ایقان والے کی صورت نشان زد ہو تا ہے۔ سو اس رخ سے دیکھیں تو یہ بات بہ جا لگتی ہے کہ " قدرت نے اچھائی اور برائی کا شعور پیدائشی طور پر ہر انسان کو الہام کر رکھا ہے۔" یہاں زخمی بلے کی شکل میں جان محمد خان کے ضمیر کی آوازہو گئی ہے اور نظم کا آخری حصہ انسان کی اسی اخلاقی انسانی فیکلٹی کی نشان دہی۔ وجود اور روح کو بھی یہاں شناخت کیا گیا اور نظم کو اس دنیا اور آخرت سے جوڑ دیا گیا ، جو یقیناً ایسا سفر ہے جسے کسی صورت آسان سفر نہیں کہا جا سکتا ۔ (جاری ہے)
     جب ایک ظلم سہتے اور تباہی کے مقابل ہوتے ہوئے غلام کی طرح زخمی بلے کو دیکھا جا رہا تھا تو اس کی جدوجہد اور اذیت سے ترقی پسندوں کو محبوب ہو جانے والے معنی چھلک پڑے تھے ۔ یہ معنی بھی نظم کے مرکز کی کشش سے آزاد ہوئے بغیر ایک دائرہ بنا لیتے ہیں لہذا اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ نظم کے کردار کا مزاحمتی ہو جانا ،اور زندگی کوایک مزاحمتی کے نقطہ نظر کی توسیع ہے ۔

    نظم کی سیاسی توجیہ بھی نظم کے متن کے اندر پھوٹی ہے اور ان نشانات کو لے کر چلتی ہے جو متن فراہم کرتا ہے مثلاً دھان، پٹ سن، خالی بورا ۔ جب یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ’’پٹ سن‘‘ اور ’’سبز پانی‘‘ کو استعارہ مان کر بات کی جائے تو میں انہیں زندہ استعارے کی صورت دیکھ رہا تھا ایسے میں خالی بورے والا زخمی بلّا مشرقی پاکستان کے عوام کے شعور کی تیز رفتار نمو، ان کا مثالی نظم و ضبط اور ان کے سینوں پر سیلاب بن کر بہنے والا سرکاری استحصالی سبز نظریہ سے جڑ گیا تھا اور نظم کے باطن میں پڑے اس طوفان کی خبر سے بھی جس کی پیش گوئی آخری سطر کررہی تھی۔

    ایسے میں شاعر کی اپنی زندگی کو نظم سے جوڑا گیا۔ گورکھپور میں آنکھ کھولنے والے اس شاعر کی زندگی کو جس نے بچپن میں اپنے گھریلو ملازم کو ایک بلّے کو بورے میں بند کر کے تالاب تک لے جاتے اور اسے ڈبو کر مار ڈالنے کا منظردیکھ رکھا تھا ۔ جس نے ہجرت کی اور لڑکپن بنگال کے بورڈنگ سکولز کی دیواروں کے پیچھے گزارنا پڑا ۔ ملک تقسیم ہوا تو جو پھرہجرت کر رہا تھا، کراچی آنے اور بعد میں لندن پہنچ کر زندگی کی آسودگی سے بغل گیر ہونے والے اس شاعر کی زندگی کا قصہ بھی اسی مطالعے کے دوران نظم سے چھلک پڑا۔ پٹ سن، دھان ، خالی بورا ، بلا، تابوت ، گندا تالاب ، اس سب کے معنی نظم کی کلیت کے اندر سے نکلتے رہے اور لطف دیتے رہے۔ اور ہماری سماعتوں سے یہ آواز ٹکراتی رہی "جان محمد خان/سفر آسان نہیں"

    نظم کا ایک معتبر حوالہ جنس بھی بنا۔ اور جب بتایا جارہا تھا کہ "ہم سب کے اندر ایک بلا ہے،لیکن ہم سب ہی جان محمد خان نہیں ہیں تو بات اپیل کر رہی تھی۔ لبیڈو کے فطری مطالبوں کو یہاں دبانا ایک طرح سے بلے کو زخمی کرنے اور بند بورے میں بند کرنے اور اذیتیں دینے کے مترادف ہو گیا تھا ۔ جب جنس کے بلے کی مدہم "میاؤں" پر دھیان نہ دھرا جائے تو اس کا سر کش ہونا اس نقطۂ نظر میں نشان زد ہوتا ہے ۔ یہی نفس ہے اور یہی اشتہا ۔ سو سارے جان محمد خان اس کو دباتے یا مار ڈالنا چاہتے ہیں ۔ جب کہ اس کا مرنا خود آدمی کا مرنا بھی ہے ۔ اچھا اسی جنسی رخ کی ایک اور طرح سے تفہیم بھی ممکن تھی کہ بلا اور گندا تالاب دونوں جنس کے مظہر ہو جاتے ، بلا خالی بورے میں رہتا ہے تو اسی کی دی ہوئی ایذا سہنے پر مجبور ہے ، جس کی دسترس میں ہے، مگر جوں ہی کسی دوسرے وجود کے گندے تالاب میں اس بلے کو ڈبو دیا جاتا ہے، زندگی جاگ اٹھتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک اور زندگی یا مشکل سفر کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ جنس کے حوالے سے یہ معنی بھی نظم کے نیوکلس کو متن سے بے دخل کیے بغیر برآمد ہوتے ہیں ۔ لہٰذا توجہ پاتے ہیں۔

    یہیں بتاتا چلوں کہ اس نظم میں تخلیقی قرینوں کو جس طرح بروئے کار لایا گیاہے، اسے بجا طور پر احباب نےنشان زد کیا ہے۔ مثلاً دیکھئےعنوان میں "بورے" کے ساتھ لفظ "خالی" کتنے جواز کے ساتھ آیا ہے، حالاں کہ اسی بورے میں بلا موجود ہے اور وہ خالی نہیں ہے۔ دھان اور پٹ سن کے لفظوں سے معنویت کے ایک علاقہ کی تعمیر، خالی بورے میں جان کا الجھنا کہہ کر بورے کے خالی پن کوشدت سے ظاہر کرنا، پھر زخمی وجود سے رگڑ کھاتا بورا، اس الجھن کی شدت کو بھی بڑھانے والا۔ بورے کے اندر سے باہر کا منظر جیسے کوئی بندی خانے سے باہر ایک محدود منظر کو دیکھتا ہے۔ بورے کی بنائی کو پٹ سن کی مضبوط سلاخیں بتانا۔ تو یوں ہے کہ یہ سلاخیں اب آہنی ہو گئی ہیں۔ نیزوں جیسی، جو ماس کاٹتی، کچ کڑچ کرتی، دل میں گڑ جاتی ہیں۔ نظم میں پٹ سن کے خالی بورے کا تابوت ہو جانا، اس معنی کا متن میں خود بہ خود ایزاد کر لیتا ہے کہ زخمی بلا بورے میں بند گندے تالاب کے پانیوں کی نذر ہو نے والا ہے۔ بورے میں بند بلےاور پگڈنڈی کا گندے تالاب میں گرنا ایک سا ہوکر پڑھنے والے کے بدن میں سنسنی اچھال دیتا ہے۔ دھان کے بورے کی دیواروں سے چھن چھن کر اندر آنے والا منظر اور چاند کے چھن چھن سکے جو آنکھ کے کٹوروں سےساتھ صوتی تصویر بناتا ہے۔

    بجا کہا گیا کہ فنی اعتبار سے نظم بہت گتھی ہوئی ہے۔ سطریں یا تو بولتی ہوئی ہیں یا تصویریں بناتی ہیں ۔ پھر قوافی کا اہتمام بھی خاص مگر مانوس صوتیات کے ساتھ موجود ہے، جان الجھتی ہے کا جان،قبل ازیں سطر کے آسان اور دھان کی صدا معدوم نہیں ہونے دیتا۔ " آگ جلائے کون"، "انگارے دہکائے کون" اور"پھول کھلائے کون" بھی اسی طرح کے صوتی قرینے ہیں ۔ "سفر آسان نہیں" اورپھر"آج سفر آسان نہیں" اور آخر میں ایک بار پھر" سفر آسان نہیں " کی تکرار جہاں معنوی سطح پر بہت اہم ہے وہیں اس صوتی آہنگ میں ایک حسن کی صورت بھی ہوجاتی ہے۔ سو انہی لسانی حیلوں نے متن کے اندر محض معنی کے کثیر دھارے ہی رواں نہیں کیے، ان کے اندر ایک چکاچوند بھی جگا دی ہے جو خارجی اسٹرکچر میں نظم نگار کے اپنے مزاج سے ہم آہنگ ہو گئی ہے۔
  •  یہیں مجھے ان سب احباب کا شکریہ ادا کرنا ہے جو اس فورم پر آئے ، اور نظم کی تفہیم میں اپنا حصہ ڈالا ، ظفر سید، علی محمد فرشی ، زکریا شاذ ، محمد یامین ، جلیل عالی ، الیاس ملک ، تصنیف حیدر ، علی ارمان ، ارشد لطیف، یشب تمنا، تسنیم عابدی، ضیا ترک ، نسیم سید، حمیدہ شاہین اور ان دوستوں کا بھی کہ جو مکالمہ پڑھتے رہے ، اسے لائیک کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ۔ باقی رہے اپنے محترم ستیہ پال آنند جنہیں میں نے محبت سے نظم پر بات کرنے کی استدعا کی تھی مگر بہ قول ساقی ’ظالم نےنظم پر کم اور دوسری چیزوں پر زیادہ بات کی ہے۔‘ اس باب میں زکریا شاذنے جو کہا وہی درست ہے:" جناب آنند صاحب کی فکر انگیز گفتگو اول و آخر پڑھ کر یہ احساس شدت کے ساتھ ہوا کہ آپ نے نظم پر براہ راست اور سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں کہا ۔۔حالانکہ وہ اس محفل میں موضوع ہی کے توسط سے تشریف لائے تھے ۔۔۔ مگر افسوس کہ ہمیں وہ اس سعادت سے بہرہ مند نہ کر سکے ۔۔ "

    مجموعی طور پر دوستوں نے بہت کا رآمد باتیں کیں ۔ جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔

    احباب گرامی،آخر میں ایک بات اور، یہ بات ایسی ہے کہ تخلیقی عمل کے دوران ہمارے تجربے کا حصہ بنتی آئی ہے ، تخلیقی عمل کے دورانیے میں لکھنے والا ڈھنگ سے گمان بھی نہیں باندھ سکتا کہ وہ مظاہر،سانحات یا محسوسات جنہوں نے اس کے باطن میں ابال پیدا کیا اور ہیجان اٹھایا تھا، جب فن پارے میں ڈھلیں گے تو کیا صورت اختیار کریں گے۔ پھر لکھتے سمے وہ تو ویسا ہوتا ہی نہیں ہے ، جیسا کہ عام زندگی میں ہمارے مشاہدے میں آتا ہے۔ ایسے میں تجربہ امیج میں ڈھل رہا ہو یا ردھم پوئٹک پیٹرن ڈھال رہا ہو، وہ بہت زیادہ ریشنل ہو کر سوچ رہا ہوتا ہے نہ عالم فاضل اور محقق بن کر۔ تاہم اس سارے عمل میں فن پارہ مکمل اور بامعنی تب ہی ہوتا ہے کہ تخلیق کے اس جادوئی عمل میں کہ جب شاعر کا شعور، تحت الشعوراور لاشعور ایک حیلے کا جال بن رہے ہوتے ہیں،تو اسی جال کے تانے بانے میں دیکھے بھالے مظاہر، سہے برتے سانحات اور علم و فضل اور تحقیقی اثاثے کے "جن" کو" مکھی" بنا کربُن دیتا ہے۔ یوں کہ ایک غیر متحرک مرکز کے گرد سیال اور لازمانی معرفت کو وجود میں لانے والا گہرا ربط وجود میں آ جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی فن پارے میں یہی ربط نامیاتی وحدت کی صورتیں بناتا ہے اور بہ ظاہر عام سی لسانی تراکیب کی مدد سے متن کے افق پرجمالیات کی دھنک اچھالنے کی سکت رکھتا ہے۔ مجھے اس بات کی جانب یوں آنا پڑا کہ جب ساقی کی نظم اور اس کے شخصی تجربے کا قصہ طول کھینچ رہا تھا توایک طرف اسے سرے سے لائق اعتنا نہیں جانا جا رہا تھا تو دوسری طرف اسے تخلیقی تجربے کی تفہیم کے واحد ٹول کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کار کی شخصی زندگی اور اس کے عمومی تجربے اور تخلیقی تجربے کے بیچ جو لطیف تعلق ہوتا ہے نہ تو اس سے انکار کیا جاسکتا ہے نہ کلی طور پر اس پر انحصار کیا جانا چاہیے۔ یوں دیکھیں تو خالی بورے والازخمی بلا، نظم کے اندر بعنیہ ویسا نہیں رہتا جیسا کہ ساقی فاروقی نے نظم کے باہر، اپنے ملنے والوں کو بتا رکھا ہے۔ اور اس کے اندر وہ سارے معنی ، کہیں مکمل اور کہیں جزوی ظاہر ہوتے رہے ہیں جو اس مکالمہ کے دوران نشان زد ہوئے ۔ ساقی فاروقی کے شکریہ کے ساتھ میں اس اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ اگلے اجلاس کے بارے میں جلد اطلاع دے دی جائے گی۔

    تمام شد

Monday, May 14, 2012

سعادت حسن منٹو کی سوویں سالگرہ پرا کادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’یوم منٹو‘‘منعقدہ ،۱۱ مئی ۲۰۱۲ میں پڑھا گیا

منٹو کی سوویں سالگرہ: اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقدہ اجلاس سے محمد حمید شاہد مخاطب ہیں ، اسٹیج پر ڈاکٹر انوار احمد(صدر نشین مقتدرہ قومی زبان)، فتح محمد ملک(ریکٹر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی) اور عبدالحمید (صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان)

منٹوکا دِن

محمد حنید شاہد
خدا خدا کرکے اکادمی ادبیات ، پاکستان پر بھی دن آئے ہیں۔ اور ’دن آنا‘ کے معنی تو آپ کو آتے ہی ہوں گے ۔ ہاں ، اس پر دن آئے ہیں اور اس کے ناتواں تن میں بھی منٹو کے افسانے،’’ کھول دو‘‘ کی سکینہ کی طرح زندگی کی رمق جاگ اٹھی ہے ۔ وہی سکینہ، جس نے ڈاکٹر کی آواز’’کھول دو‘‘ پر اپنی شلوار یوں نیچے سر کائی تھی کہ پوری انسانیت ننگی ہونے لگی تھی اور افسانہ پڑھتے ہوئے ہمارا دھیان اُس کے بوڑھے باپ سراج الدین کی طرف نہیں گیا تھا جو اپنی بیٹی میں زندگی کی رمق پا کر خوشی سے چلانے لگا تھا کہ ہم تو اُن رضا کاروں کی سفاکی سے دہشت زدہ ہوگئے تھے جو ایک کھیت میں سہم کر چھپ جانے والی سکینہ کو تلاش کر کے اُسے دلاسے کے دام میں لے آئے تھے، اُس کی دہشت دور کرکے اُن میں سے ایک نے اُس کے کندھوں پر اپنا کوٹ بھی رکھ دیا تھا کہ دوپٹہ نہ ہونے کے سبب وہ اپنے سینے کو بار بار بانہوں سے ڈھانپے جا رہی تھی۔
یہ منٹو کا دن ہے۔
اور اکادمی اس خوشی میں منا رہی ہے کہ منٹو کو پیدا ہوئے سو سال ہو گئے ہیں
حالاں کہ پیدا ہونا اتنی خوشی کی بات نہیں ہوتی ، جتنا کہ مر کر بھی نہ مرنا ۔
سو سال پہلے تو سعادت حسن پیدا ہوا تھا، ۱۱ مئی ۱۹۱۲ کو پیدا ہونے والابچہ، جس کا منٹو نے اپنی ایک تحریر میں ’’خر ذات ‘‘ کہہ کر تمسخر اڑایا تھا ۔ ایک کشمیری ،غلام حسن منٹو کے گھر میں، بالکل اسی طرح پیداہونے والا بچہ جس طرح ، اسی روز ہزاروں ، لاکھوں بچے ، اپنی اپنی ماؤں کی کوکھوں سے چیختے کرلاتے پیدا ہو گئے تھے ۔جی ، مرنے کے لیے پیدا ۔ کہ اپنا وقت آنے پر مر گئے یا مررہے ہیں تھوڑا تھوڑا کرکے۔ مر رہے ہیں یا مار رہے ہیں ایک بارود بھری جیکٹ پہن کر یا ڈرون اُڑا اُڑاکر۔ بڑے ہو کر ایک ایک کرکے یا ایک ہی ہلے میں مرنے والے اور مار ڈالنے والے یہ سب بچے منٹو کا موضوع ہو سکتے تھے ،مگر ویسے نہیں جیسا کہ منٹو خود تھا ۔کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو ، کالی شلوار، یزید اور نمرود کی خدائی جیسی کہانیاں لکھنے کے بعدمحض ۴۲ سال کی عمر میں ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ کوقطرہ بھر شراب حلقوم میں اتارنے اور باقی باچھوں سے ادھرادھر بہانے کے بعد بہ ظاہر مرجانے مگر ققنس کی طرح پھر سے جی اٹھنے والا منٹو ۔
یہ منٹو کا دن ہے ، اس لیے نہیں کہ اس روز سعادت حسن پیدا ہوا تھا ، بلکہ اس لیے کہ یہ دن ان دنوں کے بیچ آیا ہے جو منٹو کے دن ہیں ، مر کر بھی نہ مرنے والے منٹو کے دن۔
میں انہیں منٹو کے دن اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پوری قوم ، یہ ملک اور اس کے ادارے بھی ان دنوں منٹو کی دہشت زدہ ’سکینہ‘ جیسے ہو گئے ہیں ، ’’کھول دو ‘‘ کی ایک آواز پر اپنی شلوار نیچے کھسکانے والی سکینہ کہ طرح ،سب کچھ کھلنے لگتا ہے ۔ چاہے وہ قومی حمیت کا بھرم ہو ، یا دہشت گرد جارح کے لیے بارود بھرے کنٹینرز کے لیے راستہ ۔ ہم ، جو سکینہ کے باپ جیسے ہیں ، ’ جھوم جھوم کر’ہم زندہ قوم ہیں ، کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ جب کہ میں دیکھ رہا ہوں ، منٹو اپنے ٹائیپ رائیٹر پر بیٹھ گیا ہے ، اس کی انگلیاں چل رہی ہیں ، اور دَن دَن کے بیچ ایسی کہانی مکمل ہو رہی ہے کہ سب کے پسنے چھوٹ رہے ہیں ۔
منٹو تھا ہی ایسا ، نعرہ لگانے اور منافقت کا لبادہ اوڑھنے والے بے حمیت کرداروں کو یوں لکھ لینے والا کہ وہ ننگے ہوجائیں سب کے سامنے ۔ اب جب کہ اس’ کھول دو ‘کی آواز پر سب ننگے ہو گئے ہیں تو منٹو کی بابت کیوں نہ سوچیں ۔
منٹو جس کا یہ دن ہے ، بلکہ منٹو جس کے یہ دن ہیں ۔
دہشت زدہ ہونے والی اس قوم کے کندھوں پر اپنے دام دلاسے کا کوٹ ڈالنے والے نام نہاد قومی رضاکاروں کی محافظت میں در آنے والے عالمی دہشت گرد نے اسے پھر سے ریلے وینٹ کر دیا ہے ، جی ہاں،اپنی اپنی سیاسی اور فرقہ ورانہ شلواروں میں ہاتھ ڈال کر سب کے سامنے نجاست صاف کرنے والے ہمارے اپنے ملاؤں نے اور، ننگی ٹانگیں ، ناف پیالے ، چھاتیاں اور غلاظت کو میڈیا اور انٹر نیٹ کی کھڑکی سے ہمارے صحنوں میں پھینکنے والے چچا سام اور اس کے پیاروں نے منٹو کو، اس کے افسانوں کو اور چچا سام کے نام لکھے ہوئے خطوط کو آج سے ریلے وینٹ کر دیا ہے۔
منٹو کے قلم سے ٹپکا ہوا ’’نیا قانون ‘‘ کل کا افسانہ نہیں رہا ، ہماری پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قراردادوں اور عدالتی فیصلوں کے باوجود اسی طرح کی ناقابل برداشت صورت حال میں پڑے رہنے پر مجبور ہوجانے کی وجہ سے ، کہ جس کا شکارمنٹو کا تراشا ہوا شاہکار کردار’ منگو کوچوان‘ تھا، آج کا افسانہ ہوگیا ہے۔
اپنی سرزمین پر فوجی اڈوں کی سہولتیں فراہم کرنے کے وقوعے سے لے کر ڈو مور کے مطالبے پر مسلسل مرنے والی قوم کا معاملہ ہو یا اپنے دھتکارے جانے کے وقوعے کی تکرار ، ہر بارمنٹو یاد�آتا ہے اور اس کا افسانہ ’’ہتک‘‘ بھی ۔ جی ، وہی افسانہ ’’ہتک ‘‘، جس میں منٹو نے سوگندھی جیسی طوائف کا کردارلکھا تھا جو دھتکارے جانے پر یوں محسوس کرنے لگی تھی کہ جیسے وہ اندر سے خالی ہوگئی تھی ، جیسے مسافروں سے بھری ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافروں کو اتار کر لوہے کے شیڈ میں اکیلی کھڑی ہوگئی ہو ۔ ایک طوائف نے اپنی ہتک کو شدت سے محسوس کیا تھا اور منٹو نے طوائف کے بدن سے جیتی جاگتی عورت تلاش کر لی تھی جب کہ ہم اب اس منٹو کی تلاش میں ہیں کہ جو ہمارے اندر اپنی ہتک کا احساس جگا دے ، اس ضرورت نے منٹو کوآج سے ریلے وینٹ کر دیا ہے۔
منٹوریلے وینٹ تھا ، ہے اور رہے گا ،
سو یہ منٹو کے دن ہیں ۔
ابھی آدمی کو زندگی کے چلن سیکھنا ہیں ۔ اس کی موٹی کھال پر اور چرکے لگائے جانے کی ضرورت ہے ، اسے سیکھنا ہے کہ زندگی کو لطیف اور کثیف ،دونوں رُخوں سے کیسے دیکھا جاتا ہے۔ بظاہر مولوی، دلال،استاد اور طوائفیں ہو جانے والے کردار،محض افسانے کے کردار نہیں رہتے زندگی کی تفہیم بلکہ جیتی جاگتی زندگی کی اذیت ہو جاتے ہیں۔ ایسی زندگی جہاں کوئی آڑ نہیں ہوتی ، کوئی ملمع نہیں ہوتا ، کوئی ریا کاری نہیں ہوتی ، کچھ اخفا میں نہیں رہتا ، جیسی وہ ہوتی ہے ویسی ہی ، بلکہ اپنے اندر تک سے کاغذ پر اتر آتی ہے۔ یوں جسے حقیقت کی چولی اتر گئی ہو ۔
کہیں یہ حقیقت رومانی تجربے کا اظہار ہو جاتی ہے ۔ ’بیگو‘،’ مصری کی ڈلی‘ اور ’لالٹین ‘جیسے افسانوں میں اور کہیں ’ماتمی جلوس‘ ، ’شغل‘، ’نعرہ‘، ’نیا قانون ‘جیسے افسانوں میں سیاست کے مکر کو کھولتی ہے ۔ طوائفیں ،’ہتک‘،’دس روپے‘،’کالی شلوار‘ اور ’ہیجان ‘میں آکر عورت ہو جاتی ہیں اور ہمارے بدنوں سے ہیجان کا سارا گندا خون چرکے لگا لگاکر معاشرے کی گندی نالی میں بہا دیتی ہیں ۔ صاحبو ، یہ افسانے پڑھ کر ہمارے اندر آج بھی وہ احساس جاگنے لگتا ہے، جس سے انسان بنتا ہے ۔ خالص اور کھرا انسان۔ ’کھول دو‘ افسانے کا ذکر ہوا اور ’ٹھنڈا گوشت‘ کا بھی ،’ شریفن‘ کو یاد کریں اور’ موذیل‘ کو بھی یہ افسانے زمین کی تقسیم اور انسان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں یوں کہ اپنا سارا وزن انسان کے پلڑے میں ڈالتے ہیں ۔ منٹو سوئے پڑے آدمی کے اندر وار کرتا ہے ، اسے جگاتا ہے اور اس کی حسوں کو بھی ۔ وہ نہ جاگے تو ،’ سو کینڈل پاور کا بلب‘ جیسا افسانہ لکھتا ہے ، اس کے بدن پر ’ننگی تلواریں ‘ چلاتا ہے یوں جیسے اس نے ’ٹھنڈا گوشت‘ کے ایشور سنگھ کے بدن پر کلونت کور سے چرکے لگوائے تھے ۔
’ٹھنڈا گوشت‘ میں منٹو نے محض ایشور سنگھ جیسے کردار کے یخ ہاتھ میں کلونت کور کا گرما گرم ہاتھ نہیں تھمایا تھا ہمارے بدن بھی جھنجھوڑے تھے۔ مجھے تو آج بھی منٹو کے افسانے کے یہ کردار آنکھوں کے سامنے دِکھتے ہیں ۔ منٹو سارے ایشور سنگھوں سے کہتا ہے ، چل ترپ چال، پتے بہت پھینٹ چکا، اب پتا پھینک ۔ مگر صاحبو معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی محبتوں ، اپنے اپنے آدرشوں کے پاس اسی ایشور سنگھ کی طرح آتے ہیں، یخ بستہ بدنوں کے ساتھ ۔ یوں جیسے ہم نے بھی ایک دو نہیں سات سات قتل کیے ہوں ، اپنی اپنی کرپانوں سے اور ہمارے بدنوں میں برف پڑگئی ہو کہ ان میں اپنے خوابوں کی سی لڑکی بھی ہو، منٹو کے ایشور سنگھ کے مطابق ’بہت سندر‘۔
تو یوں ہے کہ یہ منٹو کے دن ہیں ، اور تقاضا کرتے ہیں کہ منٹو کو آج سے جوڑ کر پڑھا جائے ۔
مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہم منٹو کو آج سے جوڑ کر پڑھنے کے بہ جائے اس کل سے جو ڑ کر پڑھنا چاہتے ہیں جسے خود منٹو اپنے دوست شیام سے آخری بار گلے ملتے ہوئے بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔
شیام کا ذکر ہوا تو یاد آتا ہے کچھ دن پہلے لاہور میں ، لمز کے تحت بیاد سعادت حسن منٹو ’’نیا اردو افسانہ کانفرنس ‘‘ ہوئی تھی ، جس میں شیام کا ذکر ہوا منٹو کا اور اس وسیلے سے نئے افسانے کا بھی ، کہ نیا افسانہ منٹو کے ساتھ جڑنے میں زیادہ توقیر محسوس کرتا ہے ۔ کشور ناہید نے رو زنامہ ’’جنگ‘‘20 اپریل 2012 کے ادارتی صفحے پراپنے کالم میں اس کا ذکر کیا تو اچھا لگا تھا مگر ایک دو مقامات ایسے آئے کہ الجھتا ہی چلا گیا ۔ اس حوالے سے اپنا فوری ردعمل ایک برقی خط میں پہلے دے چکا ہوں اور اب یہاں دہرائے دیتا ہوں ۔ کشور نے کہا تھا کہ منٹو کے بارے میں گفتگو تشنہ رہی تھی ۔ میں بھی وہاں تھا اور محسوس کیا تھا کہ بس ایک شمیم حنفی کامضمون بھرپورتھا ، انتظار حسین ،جو لکھ کر لائے تھے ،اسے پڑھا نہیں۔یاسمین حمید کے اصرار پر بھی، اور صاف کہہ دیا ’وہ تو اب نہیں پڑھوں گا‘۔ شاید جو فضا شمیم حنفی نے بنا دی تھی ،اس کا تقاضا بھی یہی ہوگا۔ منٹو کے حوالے سے دوسری نشست انگریزی میں تھی، جس میں انگریزی بہت تھی منٹو کم کم تھا۔ اس کا حوالہ کشور نے اپنے کالم میں دیا ۔ اس نشست میں ڈاکٹر فرخ خان نے وہ درفنتنی یا پھر درفنطنی چھوڑی تھی جو تھی تو خلاف متن مگرکشور کو لطف دے گئی تب ہی توکالم میں جانچے پرکھے بغیر اسے ’’نیا نکتہ‘‘ کہہ کر آگے بڑھادیا گیا ۔ جی، وہی جس میں منٹو کے افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ کے متن کے حوالے سے ایک مغالطہ پیدا کرنے کی سعی کی گئی تھی ۔ پہلے جس طرح کشور نے لکھا اور’’نیا نکتہ‘‘ رپورٹ کیا وہ ہو بہ ہونقل کر رہا ہوں۔
"ان[فرخ ] کا کہنا تھا کہ جس پاگل خانے کے کرداروں کو منٹو نے پیش کیا ہے اس میں صرف اکیلا بھشن سنگھ ہے،جس کو پاگل نہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنی بیٹی سے بھی ملتا ہے ،اس کو یاد بھی کرتا ہے۔ کسی پاگل کی سی حرکت بھی نہیں کرتا۔ بھشن سنگھ اس بات پرحیران ہے کہ کل تک ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ہندوستان میں تھااور آج وہی علاقہ پاکستان میں قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ مہاجرین کی ٹرین میں بھی سوار نہیں ہوتا۔ وہ ایک گم شدہ روح ہے جو سوچ رہا ہے ،وہ کہاں ہے۔ آخر وہ کھیت ،جنگل سب کچھ پار کرتا ہوا بارڈر پر پہنچ جاتا ہے اور''نو مینز لینڈ" پر گر کر مر جاتا ہے۔ کسی لکھنے والے نے اس کو ہندوؤں کا ایجنٹ کہا، کسی نے اس کو پاگل قرار دیا، اسے ایسا انسان سمجھنے سے سارا ادب گریزاں رہا ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آبادیوں کے تبادلے حتی کہ پاگلوں کے تبادلے ہو رہے ہیں آخر کیوں۔''
اچھا، جب ڈاکٹر فرخ ، یہ نیا نکتہ سجھانے کو اس افسانے کی نقل فضا میں لہرا رہے تھے تو میں اس بات پر کڑھ رہا تھا کہ ہمارے ہاں متن پڑھ کر اپنا ’’نیا نکتہ‘‘ کیوں نہیں ثابت کر رہے۔ خیر بہت ساری انگریزی تو بولی گئی مگر سارا منٹو منہا ہوگیا تھا اور پھر جب کشور نے اسی تعبیر کو لائق اعتنا جانا جس کا منٹو کے لکھے ہوئے متن سے کوئی علاقہ نہیں تھا ، اور اس میں کچھ اپنی جانب سے ایسے تائیدی اضافے کیے ، جو افسانے کے روح سے مطابقت نہیں رکھتے تھے تو ریکارڈ کی درستی ضروری ہو گئی ہے کہ یہ منٹو کے دن ہیں ۔
میں آپ کی توجہ درج ذیل نقاط کی جانب چاہوں گا۔
1۔ منٹو نے اپنے کردارکو''بھشن سنگھ'' نہیں بل کہ''بشن سنگھ'' لکھا تھا لہذا اس کا حوالہ اسی املا میں ہونا چاہیئے۔
2۔ ڈاکٹر فرخ کا یہ کہنا خلاف واقعہ ہے کہ بس اکیلا بشن سنگھ تھا جسے افسانے میں منٹو نے پاگل نہیں دکھایا/ بتایا۔ مثلاً افسانے کا یہ مقام دیکھیے:
'' بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ دار وں نے ،افسروں کو دے دلا کر،پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا اور یہ پاکستان کیا ہے لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی بے خبر تھے۔''
3۔ ڈاکٹر فرخ کا یہ کہنا کہ منٹو نے افسانے کے متن میں اپنے اس کردار یعنی بشن سنگھ کو پاگل نہیں دکھایا بھی نادرست ہے۔ افسانے میں اس سکھ کردار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ:
'' ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب جملے سننے میں آتے تھے ''اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف لالٹین ''۔
اور یہ کہ وہ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ منٹو نے تو اس کی ذہنی کیفیت بتانے کے لیے پہرے داروں کا مبالغے کی حد تک بڑھا ہوا یہ بیان بھی لکھ دیا تھا کہ بشن سنگھ کا یہ افسانوی کردار''پندرہ برس کے طویل عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں۔ مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ اور جب اس سے کچھ پوچھا جاتا تو وہ ''اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ '' کہتا جسے بعد میں نے ''اوف دی پاکستان'' کی بہ جائے''اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ'' کرلیا تھا۔
4۔ یادرہے منٹو نے افسانے کے لگ بھگ تین صفحات پر مشتمل ابتدائیے میں پاگل خانے میں موجود پاگلوں کے پاگل پن کے درجے بنائے تھے تو یہ نشان دہی بھی کر دی تھی کہ
’’پاگل خانے میں وہ سب ،جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا ،اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے!‘‘
گویا بشن سنگھ ایسا پاگل تھا، جس کا دماغ بہ قول منٹو پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا، وہ پاگل تھا مگر بے ضرر، اچھل کر درخت پر نہیں چڑھتا تھا، کسی سے الجھتا نہیں تھا ، گالم گلوچ کرتا نہ کسی کو مارتا تاہم اس کے اندر اس کا اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ بستا تھا، قیام پاکستان سے کئی سال پہلے والاٹوبہ ٹیک سنگھ ، جس میں اس کی زمینیں تھیں۔
5۔ منٹو کا اپنے ایک اور کردار کے ذریعے، بشن سنگھ کے بارے میں یہ بیان بھی ڈاکٹر فرخ کے نقطہ نظر کو رد کرنے کے لیے کافی ہے کہ
''ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔''
6۔ یہ بجا کہ اسے باقی پاگلوں کی طرح یا بر خلاف ملاقات آنے کا انتظار ہوتا تھا تاہم منٹو کے یہ جملے نگاہ میں رکھے بغیر آپ کیسے کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں کہ :
'' اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بش سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جواں ہوئی تب بھی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔''
7۔ یہ بات منٹو نے افسانے کے متن میں کئی وضاحتوں سے اچھی طرح سجھا دی ہے کہ بشن سنگھ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جڑا ہوا کردار تھا۔ زمین سے پاگل پنے کی حد تک جڑا ہوا شخص۔ ایسا شخص جس کے اندراس کی بالشت بالشت بڑھتی اور پندرہ سالوں میں جوان ہو جانے والی بیٹی کے آنسو کوئی جذباتی ابال پیدا نہ کر سکتے تھے۔ تاہم جسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فکر تھی۔ منٹو کے مطابق ، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جہاں اس کی زمینیں تھیں۔
آپ اتفاق کریں گے کہ منٹو کی تحریروں سے اپنی مرضی کے معنی نکالنے کے لیے ایک ایسی متھ بنالی گئی ہے۔ منٹو پر بات کرنا فیشن ہوگیا ہے ، چونکانے والی بات مگر کسی حد تک متن اور منٹو سے منحرف بات ، کہ منٹو کے دن ہیں ۔
ایسے میں منٹو وہ رہتا ہی نہیں ہے جیسا کہ وہ ہمیں ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد والا منٹو، جس کے سامنے عجب سوالات تھے۔ جن میں دو ایک یوں بھی تھے:
'' کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی "۔۔۔اور..." آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے''
اتنے بنیادی سوالات والے منٹو کے تخلیقی وجود کو پوری طرح سمجھنے کے لیے منٹو کے دوست شیام کے حوالے سے اس کی ایک تحریر کی طرف توجہ چاہوں گا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران ایک مرتبہ منٹو نے اپنے دوست شیام سے پوچھا تھا؛
’’میں مسلمان ہوں۔ کیا تمہارا جی نہیں نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کردو‘‘
شیام نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا
’’اِس وقت نہیں۔۔۔ لیکن اْس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا۔۔۔ میں تمہیں قتل کر سکتا تھا‘‘
منٹو نے یہ سنا تو اس کے دل کو بہت دھچکا لگا تھا۔ جب ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مارے جارہے تھے تو شیام جیسے دوست کا"اِس وقت" کبھی بھی"اْس وقت" بن سکتا تھا۔ منٹو نے بہت غور کیا اور پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ شیام نے منٹو کو روکا نہیں۔ بندھا سامان دیکھ کر صرف اتنا کہا"چلے" اور منٹو کے "ہاں" کہنے پر اسے کو ئی حیرت نہیں ہوئی اس نے سامان بندھوانے میں منٹو کا ہاتھ بٹایا۔ برانڈی کی بوتل نکالی۔دوپیگ بنائے اور کہا "ہپ ٹلا" پھر قہقہے لگا کر سینے سے لگایااورکہا "سور کہیں کے" منٹو نے آنسووں کو روکا اور جواب دیا" پاکستان کے"۔۔۔ اور۔۔۔ سیدھا پاکستان چلا آیا۔
اس واقعہ کا ذکر بھی اس کانفرنس میں ہوا تھا
کہ وہ کانفرنس منٹو سے منسوب تھی ، تاہم اسے اپنے اپنے ڈھنگ سے تعبیر دی گئی تھی۔
منٹو کا ذکر ہوتا ہے ، توسب کی سوئی جنس اور تقسیم پر ٹکی رہتی ہے ، بات آگے نہیں بڑھتی۔
اور ہاں کشور کے کالم میں ایک اور اطلاع بھی تھی ۔ یہ کہ چائے کا وقفہ تھا ، ایک نوجوان کشور کے پاس آیا ، پوچھا:
’’تقسیم ہند کے علاوہ منٹو نے کیا لکھا ہے؟‘‘
تو میں نہیں جانتا کشور نے کیوں اس ضمن میں ’’موذیل‘‘ اور سیاہ حاشیے ‘‘ کو بھی گنوا دیا ۔ جب کہ مجھے ایسے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا نتساب ہی نگاہوں کے سامنے عجب سفاک منظر اچھال دیتا ہے :
’’اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
جن میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا ،مجھ سے قتل ہو گیا ہے۔‘‘
اورہاں لمز والے پہلے اجلاس کی بابت یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں ایک جملہ شمیم حنفی نے ایسا کہا کہ سب کھل کھلا اٹھے تھے۔ وہ جملہ فتح محمد ملک کے مضمون"ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ ایک نئی تعبیر" کے حوالے سے تھا جس میں ایسے بھی جملے موجود تھے، جو صرف اسلام آباد میں بیٹھ کر لکھے جا سکتے تھے ۔ مثلاً یہی کہ:
"پاکستان کا قیام بھلا پاگلوں کی سمجھ میں کیوں کر آسکتا تھا"۔
اسلام آباد میں بیٹھ کر لکھے گئے ایک جملے پر شمیم حنفی کا قہقہے اچھالتا جملہ بھی ایسا ہی تھا جسے دلی یا ممبئی میں لکھا جا سکتا تھا۔ صاحب ،جسے فتح محمد ملک کے ایسے جملوں پر گرفت کرنا ہے ضرور کرے، ظاہر ہے جو اُدھر رہ گئے ادھر نہیں آئے اُن کا بھی ایک نقطہ نظر تھا ،مگرنقطہ نظر کا اختلاف ادبی متن کی تحریف کی صورت میں یا پھر اسے سرے سے پس پشت ڈال کر من مانی تعبیر کی صورت میں نہیں نکلنا چاہیے۔
کہ صاحبو یہ منٹو کے دن ہیں ۔ منٹو کہیں گیا نہیں ہے یہیں موجود ہے اپنے افسانوں کے اصل متن کے ساتھ ۔
(سعادت حسن منٹو کی سوویں سالگرہ پرا کادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’یوم منٹو‘‘ کے نام سے،۱۱ مئی ۲۰۱۲ کو منعقدہ کانفرنس میں پڑھا گیا

Sunday, January 8, 2012

خطبہ صدارت: بہ سلسلہ "اے حسن کوزہ گر"



احباب حاشیہ !

جاوید انور کی یاد کے نام منعقد ہونے والا یہ اہم اجلاس اختتامی مرحلے میں ہے اور مجھے اپنے صدارتی کلمات آپ تک پہنچانے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں، مجھے جاوید انور کی یاد نے واقعی بہت ستایا ہے ۔ گزشتہ ایک اجلاس کے دوران ، جب کہ میں نےشاید ناحق دل برداشتہ ہو کر بحث سے الگ ہونے کا ارداہ ظاہر کیا تھا تو جاوید انور نے مجھے میسیج بھیجا" او بھائی کیا کرنے لگے ہو ، یہ ظلم نہ کرنا، میں پاکستان میں ہوتا تو تمہارے ہاں آتا ، ناشتے پر، ناشتہ اڑاتا اور تمہیں مناتا۔۔۔ " تو یوں ہے کہ وہ پاکستان آیا، اسلام آباد پہنچا، میں نے اس کے اعزاز میں ناشتے پر نظم نشست کا اہتمام کیا ، شہر بھر کے نظم نگار/شاعر جمع کیے، افتخار عارف، جلیل عالی، یاسمین حمید، علی محمد فرشی، نصیراحمد ناصر، پروین طاہر، ظفر سید، سعید احمد ، خلیق الرحمن ؛ سب نے نظمیں سنائیں ،جاویدانور سے نظمیں سنی گئیں ۔ وہ اتوار تھا۔ کئی گھنٹے ہم ساتھ رہے ۔ پھر وہ لاہور چلا گیا اور جمعہ کے روز اس کے مر جانے کی خبر آگئی ۔ سوموار ہم اس کی میت کو کندھا دینے لاہور پہنچے تھے ۔ تو یوں ہے کہ میری اتنی ہی اس سے ملاقات تھی مگرہم اتنا قریب آگئے تھے کہ یہ بچھڑنا مجھے سنبھلنے نہیں دے رہا۔ منشایاد میرے بہت قریب تھا وہ چل بسا ، جاوید انور قریب آکر بچھڑ گیا ایسی کیفیت میں یہ اجلاس شروع ہوا اور شاید ایک اداسی سی ہم سب محسوس کر رہے تھے یا پھر شاید میں ہی اتنا بجھا ہوا تھا کہ جو گرم جوشی اس طرح کے مباحث کے لیے درکار تھی اس کے لیے فضا بنانے میں ناکام ہوگیا تھا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر اس اجلاس میں ستیہ پال آنند کی نظم پر اہم مکالمہ قائم ہوا ہےجس کے لیے ابتدائیہ نگار علی محمد فرشی نے بنیادیں فراہم کر دی تھیں ۔ محمد یامین، رفیق سندیلوی،ظفرسید، ابرار احمد، علی ارمان، پروین طاہر، عارفہ شہزاد، صدف مرزا نے گفتگو میں بھرپور حصہ لیا ، خود شاعر کا نوٹ بھی اس باب میں بہت اہم ہے یوں یہ اجلاس کامیابی سے ہمکنار ہوا جس کے لیے میں آپ احباب کا یہیں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔

خواتین وحضرات!

ستیہ پال آنند نے میری مشکل یہ کہہ کر آسان کر دی ہے کہ ' کاش"حاشیہ" کی یہ تنگ کالم۔بائی۔کالم" گلی نہ ہوتی اوران پاس جامعہ میں ایک کمرہ ء جماعت ہوتا اور وہ دو عد د "فلو چارٹ" بنا کر، راشد کی نظم کو ایک طرف اور اپنی نظم کو دوسری طرف، سامنے دیوار پر " اوور ہیڈ پروجیکٹر" کی مد د سے یا "سلائڈ چینجر" کے ذریعے باری باری سےمنعکس کر سکتے۔ (یعنی صرف دو نظمیں نہیں، بلکہ ان کا "فلو چارٹ)'۔۔۔۔یہی "کاش" میرے پاس بھی ہے ۔ میں بھی دو نظموں کا فلو چارٹ اس طرح تو نہیں دکھا سکتا ، ان دونوں نظموں پر باری باری گفتگو تو کر سکتا ہوں ۔ تو یوں ہے کہ ستیہ پال آنند کی نظم پر بات کرنے سے پہلے / اور ساتھ ساتھ ہم راشد کو بھی یاد کر رہے ہیں اور کریں گے، اس لیے کہ خود نظم نگار نے پوری نظم کی تخلیقی فضا ہی راشد کی "حسن کوزہ گر" کو سامنے رکھ کر بنائی ہے۔ اچھا، ستیہ پال آنند کے ہاں یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے، یہ تو ان کے محبوب قرینوں میں سے ایک قرینہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوک روایات، دیو مالائوں، قصوں کہانیوں، حکایتوں اور ماقبل دانش وروں کے اقوال اور شاعروں کے کلام سے کچھ نہ کچھ اخذ کرتے ہیں، ایک مکالمے قائم کرنے کے لیے ، اور اپنے نظم کی تخلیقی فضا ڈھال لیا کرتے ہیں ۔ مثلاً دیکھئے ان کی نظم "کل کا نستعلیق بچہ" کے نیچے نوٹ درج ہے "ہانس اینڈرسن کی شہرہ آفاق کہانی کے تناظر میں لکھی گئی" اور نظم "آدھا بھائی جاگ رہا ہے" کا پاورقی نوٹ ہے" مرکزی خیال پنجاب کی ایک لوک کہانی سے ماخوذ" اسی طرح "عالم ارواح کی باتیں ۔ نطشے، برگساں اور اقبال" کو پڑھتے ہوئے اقبال ان کے سامنے رہا جب کہ "مجھے نہ کر وداع"، "انتقام " اور زیر نظر نظم "اے حسن کوزہ گر" لکھتے ہوئے ن م راشد ۔

احباب حاشیہ!"اے حسن کوزہ گر" کے تخلیقی لمحوں میں جب ستیہ پال آنند ، ن م راشد کی نظم"حسن کوزہ" کے مرکزی کردار حسن کوزہ گر،جہان زاد، لبیب، شہر حلب حتی کہ عطار یوسف اور خود ن م راشد کو خود سے جدا کرنے پر ایک لمحہ کے لیے بھی تیار نہیں ہورہا ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اس پر بات نظم پر بات کرتے ہوئے اتنی ہی شدت سے راشد یاد نہ آئے جتنی شدت سے وہ آنند جی کی نظم سے ابل رہا ہے۔ میں نے کہا نا کہ راشد سے آنند جی کا یہ پہلا مکالمہ نہیں ہے مثلاً ان کی ایک کتاب " مجھے نہ کر وداع " ہی لے لیں، اس کا نام پڑھتے ہی آپ کو راشد یاد آئے گا ۔ شاعر خود اعلان کر کرکے آپ کو یاد دلاتا ہے کہ مکالمہ راشد سے ہورہا ہے اور معاملہ لو اور ہیٹ کا ہے۔
راشد نے "مجھے وداع کر" میں کہا تھا :
"مجھے وداع کر/بہت ہی دیر،دیر جیسی ہوگئی/کہ اب گھڑی میں بیسویں صدی کی رات بج چکی/شجر حجر، وہ جانور، وہ طائران خستہ پر/ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر/مکالمے میں جمع ہیں/ وہ کیا کہیں گے ۔ ۔ ۔ میں خدائوں کی طرح / ازل کے بے وفائوں کی طرح۔ ۔ ۔ / پھر اپنے عہد منصبی سے پھر گیا / مجھے وداع کر ، اے میری ذات۔ ۔ ۔/"
جب آنند نے "مجھے وداع کر" کو اوندھا کر " مجھے نہ کر وداع " کر لیا اور"ن م راشد کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ" فکری اختلاف کے لیے گنجائشیں بنانے کے جتن کیے:
"مجھے نہ کر وداع/ مجھے نہ کر وداع پھر/شجر حجر، وہ جانور، وہ طائران خستہ پر/ جو میرے حلفیہ بیان کے لیے / کھڑے ہیں نیچے 'ہال' میں / میں کیا مکالمہ کروں گا ان سے 'میری ذات' بول / ۔ ۔ ۔ / سماع ہوں ، نہ صوت ہوں/ تواتر حیات میں ہوں منجمد/ نہ زندگی ، نہ موت ہوں!/ مجھے نہ کر وداع/۔ ۔ ۔ "

راشد کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ خدا سے، تصوف سے ، مذہبی علامتوں سے، ماضی سے اور روایت سے شعوری طور پر بچ نکلنے کے کھیکھن کرتا رہا اوراپنی نثری تحریروں میں اس کا اعلان بھی کرتا رہا مگر جب ہم اس کی نظموں کا جم کر مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا تخلیقی باطن، اس کی خواہش اور کوشش کے باوجودان سب سے کچھ نہ کچھ کشید کرتا رہا ہے ۔ مثلاً اسی نظم کو دیکھئے جس کے معنی کو ایک "نہ" لگا کر آنند جی نے اوندھانا چاہا ہے اس میں تخلیقی وفور نے پہلے سے راشد کی شعوری فکریات سے کٹ کر اس کے تخلیقی وفور سے معاملہ کر رکھا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آنند جی نے راشد کی اس نظم سے مکالمہ کرتے ہوئے "ذات" جیسی صوفیانہ اصطلاح سے معنی کیوں نہ اخذ کیے ،اس کی مابعد الطبعیاتی فضا کو کیوں نہیں پرکھا اور اس بابت کیوں نہیں سوچا کہ "ذات" سے جدائی کا یہ مطالبہ پہلی بار نہیں ہورہا تھا ۔ یہ واقعہ پہلے بھی ہو چکا ، اور انسان جب اپنے وجود میں قائم ہونے میں ناکام ہو گیا ہے اور اسی"ذات" میں پھر پناہ گزیں ہو گیا ہے تو ایک بار پھر اس "ذات" سے "وداع" ہونے کے معنی "شہود" کے بھی ہیں تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل اور آدمی کی "انا" کا قیام بھی ۔ صاحب، یوں دیکھیں تو کیا "ذات" سے "مجھے نہ کروداع" والا آنندجی کا مطالبہ ، کیا راشد کی نظم کی سطح پر چند خراشوں کا سا نہیں ہوگیا؟۔

ن م راشد کی نظم " انتقام " پر آنند جی کا ہاتھ درست پڑا ہے۔ یہاں واقعی ایک فکری انحراف نظر آتا ہے :

"۔/ ۔ ۔ ۔/کہ شاید "رات بھر" میں/ "اپنے ہونٹوں سے" برابر صبح تک لیتا رہوں گا/"اس سے اس سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام"/وہ "برہنہ جسم" وہ "چہرہ" وہ "خدوخال" سب کچھ/بن چھوئے ہی لوٹ آیا تھا کہ میرے ملک اب آزاد تھے / اور یہ مکافاتی طریقہ / مجھ کو بودا اور بچکانہ لگا تھا!"

جی صاحب ، میں نے کہا کہ آنند جی نے راشد کی فکر پر خوب گرفت کی مگر یوں ہے کہ یہاں بھی وہ کچھ کچھ الجھا رہے ہیں ۔ مثلاً راشد کا جنسی تشدد والا رویہ محض "بودا" ہے نہ"بچکانہ" اور پھر "خدوخال" کے ساتھ "بن چھوئے" کے الفاظ لطف نہیں دے رہے۔ خیر میں آنند جی کی نظم "اے حسن کوزہ گر" کی طرف آنا چاہوں گا جو راشد، اس کے تراشے ہوئے کرداروں اور اس کے ڈھالے ہوئے ماحول سے مکالمہ کرنے کے جتن کر رہی ہے ۔

پہلے کچھ ن م راشد کی نظم" حسن کوزہ گر " کے حوالے سے:

"حسن کوزہ گر" کے حوالے سے یہ جو کہا گیا ہے کہ اس "نظم کا ذہنی خاکہ’’وزیرِ چنیں‘‘ کی طرز پر تیار ہوا تھا"("۔ ۔ ۔/ تو جب سات سو آٹھویں رات آئی / تو کہنے لگی شہرزاد/ ۔ ۔ ۔ ۔")، مجھے بہت حد تک درست معلوم ہوتا ہے ۔ اور اس بات پر بھی دل ٹھکتا ہے کہ" تخلیقی عمل کے دوران میں شاعر کے لاشعور نے ایسی زقند بھری کہ نظم شاعر کی گرفت سے آزاد ہو کر نامعلوم بلندیوں کی طرف پرواز کرگئی۔" تاہم مجھے یہ مان لینے میں تامل ہے کہ ان نظموں میں کوئی معنوی بعد پیدا ہو گیا ہے یا یہ کہ اس کے تخلیقی خاکے میں راوی کے اعتبار سے اتھل پتھل ہو گئی ہے ۔ مجھے اپنی بات دلیل سے اور متن کے اندر سے ثابت کرنا ہو گی لہذا تھوڑا سا توقف کیجئے کہ ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے مجھے ابھی اس نظم کے مجموعی مزاج پر ایک دو باتیں عرض کرنا ہیں۔ مگر اس سے پہلے ایک وضاحت : ایک معزز رکن نے لکھ دیا تھا کہ یعنی راشد اور آنند جی کی نظمیں ایک ہی بحر میں ہیں۔تاہم اب ان کی طرف سے معذرت آگئی ہے کہ ایسا درست نہ تھا ۔ آنند جی نے ہی درست کہا ہے کہ ان نظم بحر متدارک میں ہے یعنی" فاعلن فاعلن" کی تکرار میں،جب کہ راشد کی حسن کوزہ گرکی پہلی اور چوتھی نظم " فعولن فعولن" کی تکرار میں ، دوسری "فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن۔ اور تیسری " مفاعلن مفاعلن کی تکرار میں ہے ۔۔۔۔ معذرت ہو چکی ، مگر مجھے اپنی طرف سے یہ اضافہ کرنا ہے کہ بجا کہ راشد کی چاروں نظموں کے مزاج، آہنگ اور معیار میں فرق سہی ، بعد کی نظمیں اثر انگیزی میں کم سہی مگر واقعہ یہ ہے زمانی وقفوں سے تخلیق ہونے والی یہ سب نظمیں معنیاتی سطح پر ایک د وسرے سے مربوط ہیں ۔

خواتین و حضرات !

ن م راشد نے اپنی نظم "حسن کوزہ گر" کے چار حصوں میں بہ ظاہر ایک کہانی کہی ہے ۔ کہانی کا مرکزی کردار ، جو بہ ظاہر راوی ہونے کا سوانگ بھر رہا ہے وہ بغداد کا حسن نامی ایک کوزہ گر ہے ۔ جب وہ ایک روز بازار سے گزر رہا ہوتا ہے کہ اس کی نظر عطار یوسف کی دکان کے سامنے سے موجود "جہاں زاد" پر پڑتی ہے :۔۔۔۔/تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف/کی دکّان پر میں نے دیکھا/تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی/تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں/جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں/۔۔۔"یہ بات نوٹ کرنے کی ہے احباب حاشیہ کہ نظم عین آغاز میں ہی واقعاتی ترتیب میں اکھاڑ پچھاڑ لاتی ہے ، دیکھئے نظم وہاں سے شروع نہیں ہو رہی جہاں سے حسن کوزہ گر کی نظر جہاں زاد پر پڑی تھی بلکہ اس کے بیچ بہت سا زمانی عرصہ گزر چکا ہے جس میں نو سال کی دیوانگی کا زمانہ بھی شامل ہے۔ راوی کا بہروپ بھرنے والا (میں یہ وضاحت آگے چل کر کروں گا کہ میں حسن کوزہ گر کو راوی کیوں نہیں کہہ رہا راوی کا سوانگ بھرنے والا کیوں کہہ رہا ہوں )حسن کوزہ گر سوختہ سر ہے اور نیچے گلی میں کھڑا جہاں زاد سے مخاطب ہے اور اسے بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ حسن کوزہ گر ہے: "جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے/یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!"۔ یہاں بظاہر راشد کا تراشا ہوا یہ کردار ہماری اپنی عشقیہ روایت سے مستعار لیا ہوا کردار لگتا ہے ۔ ایک ایسا شخص ، دل جس کے قابو میں نہ رہا، جو عشق میں مبتلا ہوا اور اپناآپ بھول بیٹھا : " ۔ ۔ ۔ ۔/یہ وہ دور تھا جس میں میں نے/کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب/پلٹ کر نہ دیکھا۔۔۔ /وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے/گل و رنگ و روغن کی/مخلوق بے جاں/وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے/حسن کوزہ گر اب کہاں ہے/وہ ہم سے خود اپنے عمل سے/خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں" یہیں اس نظم کا وہ ٹکڑا بھی دھیان میں رہے جس میں اپنی وفا شعار بیوی کوحسن نے سوختہ بخت کہا تھا ، جو اسے چاک پر پا بہ گِل سر بزانو دیکھتی تو اسے اس کیفیت سے نکل آنے کو کہتی اور سمجھاتی کہ اسے اپنی خستہ معیشت اور جینے کے سہارے چاک سے دل لگانا چاہیئے۔"۔۔۔/تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔۔۔/وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا/وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی/حسن کوزہ گر ہوش میں آ/حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر/یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے/حسن، اے محبّت کے مارے/محبّت امیروں کی بازی/حسن اپنے دیوار و در پر نظر کر"
حسن اس ساری صورت حال سے آگاہ تھا اور اپنی وفا شعار بیوی کی پکار کو ایسی نوائے حزیں گردانتا جیسےکسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب پکارا جارہا ہو ۔ تو یوں ہے صاحب کہ اپنے آپ سے، اپنے بال بچوں اور کام کاج سے بے نیاز کر دینے والےعشق کی روایتی کہانی ، نظم کے پہلے حصے کی حد تک یہاں تمام ہو جاتی ہے۔ مگر جناب نظم محض اتنی تو نہیں ہے اس میں بغداد کی ایک خواب گوں رات کا بھی تو ذکر ہے: ۔۔۔/جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات/وہ رود دجلہ کا ساحل/وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں/کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے/ایک ہی رات وہ کہربا تھی/کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اس کا وجود/اس کی جاں اس کا پیکر/مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا/حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے/۔۔۔۔" تو گویا صاحب، یہ محض جہاں زادکی قاف کی سی افق تاب آنکھوں کی تابناکی نہ تھی کہ جس سےحسن کوزہ گرکےجسم و جاں، ابرو مہتاب کارہگزر بن گئے تھے، بیچ میں لذت بھرا جسم بھی آگیا تھا ۔ لیجئے یہیں کہیں شاعر نے حسن کوزہ گر کی زبان سے اس کردار کے لیے "شہراوہام کے خرابوں کا مجذوب "کی شناخت بھی قائم کی ہے اور نظم کا یہ حصہ یوں مکمل کیا ہے: "تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن/تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر/وہی کوزہ گر جس کے کوزے/تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش/تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں/تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن/تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب/گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب/معیشت کے اظہار ِ فن کے سہاروں کی جانب/کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن/سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے/دلوں کے خرابے ہوں روشن۔ " تو ایساے صاحب کہ یہ شہر اوہام وہی ہے جو ہمارے تجربے کی روایت میں ہے، اگر میں آنند جی کی زبان میں بات کروں تو جہاں زاد اس فاحشہ کی سی ہے جو ہمیں اپنے جلوے دکھاتی لبھاتی اور پہلی نظر میں نادان نظر آنے والی ، مگرآخر کار اپنی لذتوں کا اسیر کرکے خاندان، معیشت اور تخلیقی مزاج اور امکانات کو تباہ کر دینے والی ہے۔ یہ جو دنیا کو فاحشہ سے تعبیر دی جاتی ہے لبھانے والی ، لذت دینے والی اور گم راہ کر ڈالنے والی ، تو کیا یوں نہیں ہے کہ راشد نے بھی جہاں زاد کو اسی دنیا کا نمائندہ بنایا ۔ اس طرح دیکھیں گے تو یہ کرداراور خود حسن کوزہ گر کا کردار محض کہانی کے کردار نہیں رہیں گے ان کی علامتی جہت بھی نمایاں ہو کر سامنے آجائے گی اور آپ جانتے ہی ہیں کہ علامتی کہانی کا ایک وتیرہ یہ بھی ہے کہ اس کا خارجی اسٹریکچر اتنا مربوط نہیں ہوتا جتنا کہ اس کے داخل میں موجود معنیاتی نظام ۔

"حسن کوزہ گر " کے دوسرے حصے کو بھی میں پہلے حصے سے مربوط پاتا ہوں کہ اس میں بات اسی شب بے راہ روی کے نشاط کو یاد کرکے شروع کی جاتی ہے اور یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جہاں زادی کی بے باکی کی وجہ سے اس کی بے راہ روی کی حقیقت حسن پر اس روز ہی کھل گئی تھی :"اے جہاں زاد،/نشاط اس شبِ بے راہ روی کی/میں کہاں تک بھولوں؟/زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی/کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا۔۔۔ /تجھے حیرت نہ ہوئی/کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر/اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت۔ ۔ ۔ /" یہ جو راشد نے یہاں شیشوں میں درزیں بنا ڈالیں تو یوں لگتا ہے ، جام ٹوٹے ، دریچوں کے شیشوں پر ، اور انہیں بھی توڑ کر یوں دولخت کرتے رہے کہ محض خراشیں نہ رہیں وہ درزیں بن گئیں ۔ خیر اس کے فاحشہ ہونے کی ،اسے اس رات ہی خبر تھی جس کا چرچا ہم نے آنند جی کی نظم میں دیکھاہے ۔ اس حصے میں اس رات کے علاوہ اس اپنا جھونپڑا ہے محرومیوں کی مکڑی کے جالوں والا ، افلاس کے مارے ہوئے اجداد کی نشانی معیشت کا نشان چاک ہے، اور وہ وفاشعار بیوی ہے جسے اب بھی حسن سوختہ بخت کہتا ہے ، سادہ محبت، جس میں شب وروز کا بڑھتا ہوا کھوکھلا پن ہے اور ایسی تنہائی جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔ یہیں حسن ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے:۔ ۔ ۔ / تجھے جس عشق کی خو ہے/مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں/تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات/کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں/اور اشیا کا پرستار بھی مَیں/اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!/تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے/میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!/عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟" اس ٹکڑے کو تعبیر دیے بغیر ہم محض اس نظم کی خارجی سطح پر تیرتے رہیں گے ۔ تاہم اگر میری ابتدائی معروضات آپ کے ذہن میں تازہ ہیں تو مجھے کچھ دہرانے کی حاجت نہیں رہے گی اور یہ ٹکڑا اپنی تفسیر آپ ہو جائے گا ۔ نظم کا یہ حصہ بھی یہ سجھانے پر تمام ہوتا ہے کہ ہر عشق ایسا سوال ہوتا ہے جس کا جواب عشق کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور یہ بات تو پہلے ہی کہی جا چکی کہ حسن جس عشق کی بات کر رہا ہے وہ اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے۔ اسی سے ذات کا سمندر آئینہ ہوتا ہے ، اور یہی کسی بھی فن کی انتہا ہوسکتا ہے۔

خیر مجھے تو اس نظم کے خارجی اسٹریکچر میں بھی کوئی رخنہ نظر نہیں آتا ، اب تمنا کی وسعت کے معنی بھی طے ہو جاتے ہیں۔ اور اس بات کے بھی کہ اگر اپنے ایسے عشق کی فرمائش پر ایک تخلیق کار اپنے فن کی طرف لوٹ بھی جائے گا تو ممکن ہے وہ ایک خاص حد تک آگے بڑھے ، اپنے فن سے ایسے شرارے نکالے جس سے دلوں کے خرابے روشن ہوں مگر یہ امکان شاعر نے "لیکن" لکھ کر شروع کیا ہے کہ وہ جانتا ہے تمنا کی وسعت یہاں پہنچ کر تمام نہیں ہوتی ہے۔ خواتین و حضرات ! میں نے اس ابتدائی حصہ پر ذرا تفصیل سے اس لیے بات کی کہ جسے محض ماضی کا قصہ سمجھا جارہا ہے اس کی علامتی اورمتصوفانہ جہت بھی نمایاں ہو جائے۔ اب آپ بہ سہولت فیصلہ دے پائیں گے کہ:

۔ زندگی محض ایک خاندان کو پالنا اور اپنے معیشت کے چاک کو چلانے کا نام نہیں ہے

۔ عشق محض کسی کی نگاہ کا اسیر ہونے اور اس کے جسم کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے

۔ فن محض ذریعہ معاش نہیں ہوتا، سچی لگن اور تمنا کی بے پناہ وسعت ہی اس میں ایسے شرارے بھرسکتی ہے جس سے دلوں کے خرابے روشن ہوتے ہیں

۔ عشق وہی سچا ہے عاشق کو ذات کی معرفت دے ، تمنا کی اس وسعت کے ساتھ جس کا کوئی کنارا نہیں ہوتا

ن م راشد کی نظم " انتقام " پر آنند جی کا ہاتھ درست پڑا ہے۔ یہاں واقعی ایک فکری انحراف نظر آتا ہے :

"۔/ ۔ ۔ ۔/کہ شاید "رات بھر" میں/ "اپنے ہونٹوں سے" برابر صبح تک لیتا رہوں گا/"اس سے اس سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام"/وہ "برہنہ جسم" وہ "چہرہ" وہ "خدوخال" سب کچھ/بن چھوئے ہی لوٹ آیا تھا کہ میرے ملک اب آزاد تھے / اور یہ مکافاتی طریقہ / مجھ کو بودا اور بچکانہ لگا تھا!"

جی صاحب ، میں نے کہا کہ آنند جی نے راشد کی فکر پر خوب گرفت کی مگر یوں ہے کہ یہاں بھی وہ کچھ کچھ الجھا رہے ہیں ۔ مثلاً راشد کا جنسی تشدد والا رویہ محض "بودا" ہے نہ"بچکانہ" اور پھر "خدوخال" کے ساتھ "بن چھوئے" کے الفاظ لطف نہیں دے رہے۔ خیر میں آنند جی کی نظم "اے حسن کوزہ گر" کی طرف آنا چاہوں گا جو راشد، اس کے تراشے ہوئے کرداروں اور اس کے ڈھالے ہوئے ماحول سے مکالمہ کرنے کے جتن کر رہی ہے ۔

پہلے کچھ ن م راشد کی نظم" حسن کوزہ گر " کے حوالے سے:

"حسن کوزہ گر" کے حوالے سے یہ جو کہا گیا ہے کہ اس "نظم کا ذہنی خاکہ’’وزیرِ چنیں‘‘ کی طرز پر تیار ہوا تھا"("۔ ۔ ۔/ تو جب سات سو آٹھویں رات آئی / تو کہنے لگی شہرزاد/ ۔ ۔ ۔ ۔")، مجھے بہت حد تک درست معلوم ہوتا ہے ۔ اور اس بات پر بھی دل ٹھکتا ہے کہ" تخلیقی عمل کے دوران میں شاعر کے لاشعور نے ایسی زقند بھری کہ نظم شاعر کی گرفت سے آزاد ہو کر نامعلوم بلندیوں کی طرف پرواز کرگئی۔" تاہم مجھے یہ مان لینے میں تامل ہے کہ ان نظموں میں کوئی معنوی بعد پیدا ہو گیا ہے یا یہ کہ اس کے تخلیقی خاکے میں راوی کے اعتبار سے اتھل پتھل ہو گئی ہے ۔ مجھے اپنی بات دلیل سے اور متن کے اندر سے ثابت کرنا ہو گی لہذا تھوڑا سا توقف کیجئے کہ ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے مجھے ابھی اس نظم کے مجموعی مزاج پر ایک دو باتیں عرض کرنا ہیں۔ مگر اس سے پہلے ایک وضاحت : ایک معزز رکن نے لکھ دیا تھا کہ یعنی راشد اور آنند جی کی نظمیں ایک ہی بحر میں ہیں۔تاہم اب ان کی طرف سے معذرت آگئی ہے کہ ایسا درست نہ تھا ۔ آنند جی نے ہی درست کہا ہے کہ ان نظم بحر متدارک میں ہے یعنی" فاعلن فاعلن" کی تکرار میں،جب کہ راشد کی حسن کوزہ گرکی پہلی اور چوتھی نظم " فعولن فعولن" کی تکرار میں ، دوسری "فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن۔ اور تیسری " مفاعلن مفاعلن کی تکرار میں ہے ۔۔۔۔ معذرت ہو چکی ، مگر مجھے اپنی طرف سے یہ اضافہ کرنا ہے کہ بجا کہ راشد کی چاروں نظموں کے مزاج، آہنگ اور معیار میں فرق سہی ، بعد کی نظمیں اثر انگیزی میں کم سہی مگر واقعہ یہ ہے زمانی وقفوں سے تخلیق ہونے والی یہ سب نظمیں معنیاتی سطح پر ایک د وسرے سے مربوط ہیں ۔

"حسن کوزہ گر " کے دوسرے حصے کو بھی میں پہلے حصے سے مربوط پاتا ہوں کہ اس میں بات اسی شب بے راہ روی کے نشاط کو یاد کرکے شروع کی جاتی ہے اور یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جہاں زادی کی بے باکی کی وجہ سے اس کی بے راہ روی کی حقیقت حسن پر اس روز ہی کھل گئی تھی :"اے جہاں زاد،/نشاط اس شبِ بے راہ روی کی/میں کہاں تک بھولوں؟/زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی/کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا۔۔۔ /تجھے حیرت نہ ہوئی/کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر/اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت۔ ۔ ۔ /" یہ جو راشد نے یہاں شیشوں میں درزیں بنا ڈالیں تو یوں لگتا ہے ، جام ٹوٹے ، دریچوں کے شیشوں پر ، اور انہیں بھی توڑ کر یوں دولخت کرتے رہے کہ محض خراشیں نہ رہیں وہ درزیں بن گئیں ۔ خیر اس کے فاحشہ ہونے کی ،اسے اس رات ہی خبر تھی جس کا چرچا ہم نے آنند جی کی نظم میں دیکھاہے ۔ اس حصے میں اس رات کے علاوہ اس اپنا جھونپڑا ہے محرومیوں کی مکڑی کے جالوں والا ، افلاس کے مارے ہوئے اجداد کی نشانی معیشت کا نشان چاک ہے، اور وہ وفاشعار بیوی ہے جسے اب بھی حسن سوختہ بخت کہتا ہے ، سادہ محبت، جس میں شب وروز کا بڑھتا ہوا کھوکھلا پن ہے اور ایسی تنہائی جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔ یہیں حسن ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے:۔ ۔ ۔ / تجھے جس عشق کی خو ہے/مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں/تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات/کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں/اور اشیا کا پرستار بھی مَیں/اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!/تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے/میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!/عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟" اس ٹکڑے کو تعبیر دیے بغیر ہم محض اس نظم کی خارجی سطح پر تیرتے رہیں گے ۔ تاہم اگر میری ابتدائی معروضات آپ کے ذہن میں تازہ ہیں تو مجھے کچھ دہرانے کی حاجت نہیں رہے گی اور یہ ٹکڑا اپنی تفسیر آپ ہو جائے گا ۔ نظم کا یہ حصہ بھی یہ سجھانے پر تمام ہوتا ہے کہ ہر عشق ایسا سوال ہوتا ہے جس کا جواب عشق کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور یہ بات تو پہلے ہی کہی جا چکی کہ حسن جس عشق کی بات کر رہا ہے وہ اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے۔ اسی سے ذات کا سمندر آئینہ ہوتا ہے ، اور یہی کسی بھی فن کی انتہا ہوسکتا ہے۔

احباب حاشیہ : نظم کا تیسرےحصے اور پہلے دوحصوں کے بیچ بھی مجھے کوئی رخنہ نظر نہیں آیا۔ یہاں بھی حسن کوزہ گر ہی راوی کا سوانگ بھرے ہوئے ہے۔ اس حصے میں بھی حلب کی کارواں سرا کا حوض ہے اور رات وہ سکوت،جس میں حسن اور جہاں زاد تمام رات ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے۔ حتی کہ وہ وہاں سے لوٹا تو یہ وہم بھی اس کے دل میں تَیرنے لگا تھاکہ ہو نہ ہو اس کا بدن وہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیاتھا۔ خیر یہ حسن کو جلد ہی خبر ہو گئی کہ ؛۔۔۔/"مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں/اگر ہمیں ہوں۔۔۔ تُو ہو او مَیں ہوں ۔۔۔۔ پھر بھی مَیں/ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں/اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں/کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد/ایسی الجھنیں ہیں/جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا/جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر/فریب اپنے آپ سے" اب وہی زمانہ کے فاحشہ ہونے والی بات دھیان میں رہے تو جس گوں کا علامتی کردار ن م راشد نے حس کوزہ گر کی صورت میں تراشا ہے وہ ، جہاں زاد(زمانے کی جنی ہوئی) کی قربت کے لطف اورلذتوں سے کیسے اپنے آپ کی نفی کر سکتا ہے ۔ معنیاتی سطح پر دیکھیں تو یہاں شاعر کسی صنفی تعصب کا مرتکب بھی نہیں ہوا کہ اس نے دنیا کو فاحشہ کے روپ میں دیکھا ہے، عورت کو نہیں۔ اچھا نظم میں دنیا کے ایک بیٹے کا کردار بھی آتا ہے لبیب ، یوں تعصب کا شائبہ سا بھی ، جو پڑھتے ہوئے قاری کو بدمزا کرتا ہے لبیب کے آنے سے کافور ہو جاتا ہے ۔ اس لبیب کا ذکرتمام رات جہاں زاد کےلب پر رہا تھا ، اس کے گیسوؤں کو کھینچنے اور لبوں کو نوچنے والے لبیب کا ذکر اپنی معشوق کے لبوں سے سن کر بھی اس کی طرف متوجہ رہنا ، زن فاحشہ ہوجانے والی اس دنیا کی طرف ہمارے اس قدر متوجہ رہنے سے عبارت ہے جس میں تخلیقی سطح پر وجود فنا ہوجایا کرتا ہے۔ اس تعلق کی بنیاد پر جو مثلث بنتی ہے اس کا قصہ نظم یوں کہتی ہے ۔ "جہاں زاد/ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں/یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے/ہمیشہ گھومتے رہے/کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا/مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے۔۔۔/مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں/جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا"۔ اسی حصے میں کوزے بنتے بنتے "تو" بھی بنتے ہیں اِس وصالِ رہ گزر کی نشاط حسن کوزہ گر کو ناگہاں نگل بھی جاتی ہے ۔ راشد نے حسن کوزہ گر کے علامتی کردار کی زبان سےعشق کو انتہائے معرفت کا نام دیا ۔ ۔۔۔"/مَیں ایک غریب کوزہ گر/یہ انتہائے معرفت/یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت۔" اس معرفت کے باوجود آدمی کا پھسلے چلے جانا ایک واقعہ ہے اور حسن کوزہ گر اس کی علامت۔ تاہم نظم کے اس حصہ کے آخر میں حسن کا باطن یوں جاگ اٹھتاہے جیسے خدا کے لاشعور میں بہشت جاگ اٹھتی ہے ، یہیں اس نے اپنے تخلیقی باطن کو ریت پر پڑے غنودہ کوزوں کے جاگنے سے تعبیر دی ہے ۔ ۔۔۔"/مِرے دروں میں جاگ اُٹھے/مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی/بہشت جیسے جاگ اُٹھے خدا کے لا شعور میں/مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا/غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو/۔ ۔ ۔مرے وجود سے بروں ۔۔۔/تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے/میرے اپنے آپ سے فراق میں،/وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)/وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے/وہ روئتِ ازل بنے!

اب آئیے خواتین و حضرات ، نظم کے چوتھے اور آخری حصہ کی جانب ، جس کے بارے میں میرا ماننا ہے کہ یہاں راوی دو ہو گئے ہیں ۔ تاہم یہیں میں اسے نظم کی خامی نہیں مانوں گا کہ نظم میں باقاعدہ اس کا جواز موجود ہے ۔ میں اوپر حسن کوزہ گر کو راوی نہیں بلکہ ایسا کردار کہتا آیا ہوں جس نے روای کا سوانگ بھرا ہوا ہے ؛ ایسا کہنے کا جواز اب میں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں ۔ نظم کے چوتھے حصہ میں اعلان ہورہا ہے کہ فی الاصل اس نظم کہانی کا راوی خود شاعر ہے ، جو پہلے حسن کوزہ گر کے وجود میں بیٹھا ہوا تھا۔ : "جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد/اِک شہرِ مدفون کی ہرگلی میں/مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں/کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں/حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر ۔۔۔ اِک نئے شہر میں ۔۔۔/اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا/اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے/ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے/کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے/(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)/اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں/بناتے رہے ہیں/اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے/یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر/ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں۔،،

احباب حاشیہ ! اس چوتھے حصہ میں اور درج بالا ٹکڑے میں راشد ماضی کے اپنے تراشے ہوئے کردار حسن کوزہ گر کا کہانی کے راوی سے معزول کرتا ہے تاہم اس کا قرینہ موجود ہے اور اس کا جواز بھی ۔ اب وہ اپنے زمانے کے ساتھ جڑتا ہے ، ہزاروں سالوں بعد، کہنہ پرستوں کے انبوہ کو دیکھتا ہے یہ ماضی پرست تہذیبی اقدار اور اس کی علامتوں کی روح سے آگاہ نہیں ہیں ۔ صاحب یہی وہ مقام ہے جہاں راشد کو ماضی بامعنی نظر آتا ہے۔ یہیں راشد نے اس درد رسالت کے روز بشارت کو یاد دلایا،جسے بہ ہر حال جام و مینا کے تشنہ لب تک پہنچناہے ۔ ایک سچے تخلیقی آدمی کے مقدر میں ہے کہ وہ اس درد رسالت کو سہے جو راشد نے سہا ہے اور اس سے ایک نتیجہ اخذ کرکے اس نظم کو اردو ادب کی بڑی نظموں میں رکھ دینے کے قابل بنا دیا ہے۔" یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں/کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ/ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں/یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں/وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں/تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں/ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں/کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں/جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کی مانند/اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں/اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا/اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں" لیجئے صاحب نظم یہاں تمام ہوئی معنوی لحاظ سے پوری طرح مربوط اور مکمل ، میں مانتا ہوں کہ عورت کے بارے میں راشد کے خیالات میں ایک طرح کی کجی پائی جاتی ہے مگر اس نظم میں وہ اس تہمت سے بھی بچ گیا ۔ یہ بھی مانتا ہوں کہ نظم جو معنیاتی نظام بناتی ہے وہ راشد کی اس فکر سے انحراف سے عبارت ہے جس کا شعوری سطح پر وہ پرچار کرتے رہےتاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظم تخلیقی سطح پر راشد کے باطن سے منحرف نہیں ہوئی ہے ۔ راشد نے اس نظم میں ماضی، روایت اور تہذیب سے ایک بامعنی تعلق قائم کیا ہے ۔ ایسا تعلق کہ جو مستقبل گیر ہو سکتا ہے ۔

ستیہ پال آنند کی نظم "اے حسن کوزہ گر" کے باب میں:

احباب حاشیہ ، یہ میں پہلے ہی کہہ آیا ہوں کہ اس نظم کی تیکنیک بھی لگ بھگ وہی بنتی ہے جو ، آنند جی نے "مجھے نہ کر وداع" میں برتی ہے ۔ وہاں اس کا اعلان نہ کیا گیا تھا کہ ان کی نظم میں" رید کتیو اید ابسرد م" والی تکنیک استعمال ہوئی تھی ۔ تاہم یہ اطلاع اس نظم کےپڑھنے والوں کو فراہم کر دی گئی ہے۔ نظم کے علاوہ اگر کوئی متن نظم کے ساتھ نتھی کردیا جائے تو یقیناً اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور جہاں تک میں سمجھا ہوں یہاں اس نوٹ کا مطلب اس نظم کو ایک خاص تناظر دینے کا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ "اے حسن کوزہ گر" لکھتے ہوئے نظم سے وہ معنی اخذ کیے گئے ہیں جو راشد کے ہاں ہوں گے ، یا جو اس فن پارے سے پھوٹے پڑ رہے ہیں اور شاید اس تیکنیک کے تحت آنند جی اس کے مکلف بھی نہیں رہے ، لہذا ہم آنند جی کی نظم پر بات کرتے ہوئے راشد کی نظم کے صرف ان علاقوں کی طرف اشارہ کریں گے جو آنند جی کی نظم کے تصرف میں رہے ہیں ۔ "اے حسن کوزہ گر" میں عین آغاز میں ہی راشد کی نظم کے اس راوی کی شناخت کا سوال اٹھایا گیا ہے :"اے حَسن کوزہ گر/کون ہے تو؟ بتا/اور” تُو“ میں بھی شامل ہے، ”ہاں“ اور ”نہیں"/تُو جو خود کوزہ گر بھی ہے، کوزہ بھی ہے/اورشہر حلب کے گڑھوں سے نکالے ہوئے/آب وگل کا ہی گوندھا ہوا ایک تودہ بھی ہے/جو کبھی چاک پر تو چڑھایا گیا تھا، مگر/خشک کیچڑ سا اب سوکھتے سوکھتے/اپنی صورت گری کی توقع بھی از یادِ رفتہ کیے/چاہ نیساں کی گہرائی میں/خواب آلودہ ہے" یہ نظم کا آغاز ہے ، اور عین آغاز سےیوں لگتا ہے کہ اس تیکنیک کے حوالے سے وہ جو کہا گیا ہے کہ شاعر نے راشد کی نظم کے سامنے آئینہ رکھا ، عام آئینہ نہیں بلکہ میلوں ٹھیلوں والا چہرے کے چوکھٹے کو گڈمڈ کر دینے والا آئینہ، تو ایک لحاظ سے درست ہی کہا گیا تھا ۔ وہ یوں کہ ایک تو آنند جی نے اس کردار کوراشد کی نظم کے مجموعی تناظر میں نہیں دیکھا ، بس اتنا دیکھا ہے جتنا کہ اس آئینے کے فریم کے اندر سما گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے باطن میں موجود معنیاتی نظام کو مدنظر رکھنے کی بہ جائے صرف اس کے خارج میں موجود واقعاتی سطح سے معاملہ رکھا ہے ۔ آئینہ بھی باطن سےسروکار نہیں رکھتا وہ دکھاتا جو سطح سے اخذ کرتا ہے۔ اور اب چوں کہ یہ آئینہ " رید کتیو اید ابسرد م" کی تیکنیکی زنگار والا ہے لہذا مبالغہ کی حد تک تضادات کو اخذ کیا گیا ہے ۔ جس طرح پکاسو کو حق تھا کہ وہ تصویر بناتے ہوئے چہرہ گڈمڈ کر دیے ، اتنا کہ اصل کہیں پس منظر میں چلا جائے اورتھامس ناسٹ کو حق تھا کہ وہ کیری کیچر بناتے ہوئے نقل بہ مطابق اصل نہ بنانے، اسے مضحک بنادے ، آنند جی کو بھی حق ہے کہ " رید کتیو اید ابسرد م"کے وسیلے وہ تضادات جو وہ متن کے اوپر سے اپنی صواب دید کے مطابق اٹھائیں اور معنی اوندھا دیں ۔ تو یوں ہے کہ انہوں نے نظم کےخارج میں موجود شواہد کو لے کر باطنی معنوں کو اوندھا کر رکھ دیا ہے۔

احباب گرامی، کیا اس پوری نظم میں جنس کو اس سطح پر برتا گیا ہے جس سطح پر آنند جی کی نظم اسے زیر بحث لاتی ہے ، شاید نہیں بلکہ یقیناً اس کا جواب ہوگا نہیں، بالکل نہیں۔ میں نہیں کہتا کہ راشد کا مسئلہ کبھی جنس نہیں رہا، ضرور رہا ہے اور شاید مریضانہ حد تک یہ رویہ اس کی نظموں میں بھی ظاہر ہوا ہے مگر بات اس نظم کی ہو رہی ہے ایک ایسی نظم جس کے تخلیقی وفور نے اس کے صنفی تعصب کو بھی پچھاڑ دیا ہے ، وہاں ایک رات ، صرف ایک رات والی جنس جو آخر تک عورت کے وجود سےمحض ایک الجھن سے زیادہ شاعر کو کچھ نہیں دے پاتی ، کیسے اس سارے مکالمے کا جواز ہو سکتی ہے جو "اے حسن کوزہ گر" میں انتہائی مشاقی سے آنند جی نے قائم کر دیا ہے کہ پڑھتے ہوئے مفہوم کا یوں اوندھایا جانا ہی اس تخلیق پارے کو الگ دھج کافن پارہ بنا دیتا ہے ۔خود آنند جی ہی کے مطابق:

"جس میں حسن کوزہ گر کومیری نظم میں براہ راست مخاطب کیا گیا ہے، وہ ان سطور کے بارے میں ہے جو اس کے "مردانہ پن" پر دلالت کرتی تھیں۔ یعنی "ریڈکتیو اید ابسردم" کے طریق کار کے الٹ طریق کار "ایکزیجریشن اید ابسردم" کو بروئے کار لاتے ہوءے "مردانہ پن کے نہ ہونے" پر دلالت کرتی تھیں۔ یہ سطریں دیکھیں۔اے حَسن کوزہ گر/ بات کر مجھ سے، یعنی خود اپنے ہی ہم زاد سے / اور ڈر مت حقیقت سے اپنے بدن کی /کہ ڈر ہی ترے جسم و جاں کو ہے جکڑے ہوئے /تشنگی جاں “کی، یعنی خود اپنی ہی مٹھی میں پکڑی ہوئی / ادھ مری خشک جاں / العطش العطش ہی پکارے گی اب آخری سانس تک /کیوںکہ تو جسم اپنا تو اس ’حوض بستر‘ میں ہی چھوڑ آیا تھا / جس میں جہاں زاد کے جسم کی/گرم ، مرطوب دل داریوں کی تمازت/ابھی تک تڑپتی ہے لیٹی ہوئی //اور جنّت کے موذی سی بل کھاتی چادر کے بد رنگ دھبوں میں/۔۔۔ لپٹی ہوئ
اس سے آگے کی سطریں تو حقیقت کو بیان کرنے کے فرض کی ادائی کچھ زیادہ ہی صراحت سے کرتی ہیں۔ ایک شب ہی حسن صرف کافی تھی تیرے / ہنر کی نمائش کی یا امتحان کی، مگر / تیری پسپائی تیرا مقدر بنی / اور کرتا بھی کیا ؟ / سب بنے، ادھ بنے / "سارے مینا و جام و سبو اور فانوس و گلدان" تو / بس وہیں چاک پر "ان جنی اپنی مخلوق کو ترک کر کے / حلب چھوڑ کر / سوئے بغداد کیوں گامزن ہو گیا؟۔۔۔۔۔اب سوال یہی رہ جاتا ہے کہ کیا حسن کوزہ گرکا یہ روپ نون میم راشد کا وہ مخفی روپ ہے جسے وہ چھپائے ہویے پہلے ایران اور پھر لنڈن، نیو یارک، میں پھرتا رہا۔ لیکن اس نے اسے چین نہیں لینے دیا، اور تخلیق کے دھارے میں بہتے ہوءے اس نظم میں سطح پر ابھر آیا۔"

اس طویل اقتباس سے آپ احباب نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ آنند جی راشد کے حسن کوزہ گر سے مکالمہ کرتے کرتے، اپنی تخلیق سے پھوٹنے والے اوراپنی نظر سے دیکھے ہوئے راشد کو کم کم جب کہ ساقی فاروقی اور دوسروں کی زبان سے سنے ہوئے راشد کو یہاں زیادہ برتا ہے ۔ ن م راشد کا حسن کوزہ گر اپنے "آپ" کی طرف پلٹتا ہے اس کے یوں پلٹنے کو بہ سہولت مثبت معنی بھی دے جاسکتے تھے مگر جس راشد سے آنند جی کا اس تیکنیک کے توسل سے معاملہ ہو رہا ہے، اس کے سطح پر سے اخذ کیے گئے معانی کو ہی متحرک کیا جاسکتا تھا ۔

اچھا' ماقبل شاعر کو، اس کی فکر اور کردار کو اس طرح دیکھنا کہ اچھا بھلا چہرہ کچھ کا کچھ ہو جائے خود راشد کو بھی عزیز رہا ہے ، اس نے اقبال سے لگ بھگ ایسا ہی معاملہ کر رکھا ہے ۔ اقبال نے یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کو جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیر قرار دیا تو راشد نے کہا تھا :

اے فلسفہ گو/ کہاں وہ رویائے آسمانی /کہاں یہ نمرود کی خدائی/ تو جال بنتا رہا ،جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے/ہم اس یقیں سے،ہم اس عمل سے، ہم اس محبت سے/آج مایوس ہو چکے ہیں" ۔

یا پھر "نیادور"میں چھپنے والی نظم "پریڈ" سے برآمد ہونے والا اقبال وہ نہیں ہے ، جو اپنی تحریروں میں نظر آتا ہے بلکہ وہ ہے جسے راشد نے اپنے تئیں اخذ کیا ہے:

"کرسمس کے دن/اقبال/اپنے گھر کے چبوترے پر کھڑا/روحوں کی پریڈ سے/ سلامی لے رہا تھا/ سب کے پائوں اکھڑے ہوئے تھے/ سوائے رومی کے/سوائے نیٹشے اور برگساں کے/ سوائےچند نیک دل بادشاہوں کے/ اقبال غصے میں بھرا ہوا /گھر کے اندرچلا گیا/اور دوبارہ/اپنی مومن بتیاں بنانے لگا/میری مومن بتی کیوں بجھ گئی ؟/ اسے پھر سے کیسے روشن کروں؟۔"

جس طرح راشد نے اقبال کے ہاں سے "مومن بتیاں" برآمد کر لی تھیں اسی طرح آنند جی نے راشد کے جہاں زاد جیسی عورتوں کو نہ" سلجھ" سکنے پر جھن جھنانے کو اور اپنے آپ کی طرف پلٹنے سے "مردانہ پن کے نہ ہونے" کو برآمد کر لیا ہے۔آنند جی نے" ریدکتییو اید ابسردم" کی تھیوری کے اطلاق سے راشد کو جس نہج سے عریاں کرنا چاہا تھا کر دیا اور میں اسے بھی مانتا ہوں کہ شاعر نے اپنےذہنی تجربہ سے اپنے ذہن میں عیاں ہو نے والے منظر سے چلتے ہوئے اور اپنے مفروضات کو تخیل کے خاکے میں ڈھالتے ہوئے اس عریانی سے الفاظ کے ملبوس کی طرف سفر کیا تو لائق توجہ فن پارے میں ڈھال لیا ہے ۔

احباب نظم میں راشد کی "تشنگی جاں ہو"یا "نو برس "بھٹکنے کا حوالہ ، عشق کے استعارے نہیں بنتے ایسا عکس بنتے ہیں جس میں جنسی تشنگی کا شاخسانہ ہو جاتے ہیں :"ہاں، ترا اس سفر پر نکلنا ضروری تھا/بغداد تھی جس کی منزل، (سکونت فقط نو برس کے لیے)/ہندسہ ’نو‘ کا گنتی میں اک رکن ہے، اک مفرد عدد/اے حَسن کوزہ گر/تو بھی ”الجھن“ ہے ان عورتوں کی طرح/جن کو سلجھا کے کہنا کہ ہم نے انھیں پا لیا/واہمہ ہے فقط/کیوں کہ میرا بدن جو کہ تیرا بھی تھا اور کوزوں کا بھی/تو وہیں حوض میں ڈوب کررہ گیا تھا اسی رات/جب ہم بچھڑنے سے پہلے ملے اور گم ہو گئے/تجھ کو اتنا توشاید پتا ہے کہ شب جوترے ذہن میں/ڈائنوں سی کھڑی ایک عشرے سے اک سال کم/تجھ کو کیوں، اے حسن، پورے نو سال دھوکے میں رکھ کر/بلاتی رہی ہے حلب کی طرف/وہ تو اب ایک”لب خند“ عورت ہے، لڑکی نہیں/۔۔۔"

یہ جو کہا جا رہا ہے کہ آنند جی نے اس نظم کے ذریعہ راشد کی نظم کے حوالے سے تنقیدی سوالات قائم کیے ہیں ۔ اچھاآنند جی نے اپنی نظم پر بات کرتے ہوئے بہت سے تنقیدی مباحث کو چھیڑا ایک ایک کرکے کئی تھیوریوں کو گنوادیا مگر نظم کے اوپر قائم کیے گئے نوٹ ، اور نظم کے قرینے کو دھیان میں رکھا جائے تو ہم اپنے آپ کواپنے آپ کو راشد کی نظم سے برآمد ہونے والے کسی اور معنیاتی نظام کی بہ جائے ان ہی معنوں سے معاملہ کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں ، جو اس تیکنیک کے خاص وسیلے سےآنند جی کی نظم کےمتن سے برآمد ہو رہے ہیں ۔ تو یوں ہے آنند جی نے اسے خوب رواں دواں بنا ہے ، قصے کی طرح دلچسپ بنایا ہے اور اس میں راشد کی جنس کی متھ سے نہ صرف خوب خوب لذت برآمد کی ہے ، انسانی رشتوں کے حوالوں سے اور عورت مرد کے حوالوں سے ایک نقطہ نظر بھی قاری تک منتقل کیا ہے جو راشد کے حوالے سے بنائی ہوئی متھ کو رد کرتا ہے ایک مقدمہ قائم کرتا ہے اور راشد کو مجرم بنا ڈالتا ہے۔ اسی جہاں زاد سے شاعر اپنی رسم و راہ کی صورت دکھاتا ہے تو راشد کی نظم کی فضا واقعی پس منظر میں چلی جاتی ہے: ۔۔۔/ہاں، جہاں زاد سے میری بھی رسم و رہ ایک مدّت سے ہے/اور فن کے تجاذب کی تحریک بھی مجھ کو دی ہے کسی ایک ”نادان“ نے/اپنی کچی جوانی کی نا پختہ پہلی بلوغت کے دن/جب وہ ”نادان“ تھی/میں بھی نادان تھا/نا رسا آس تھی/بے طلب پیاس تھی/چار سو یاس تھی/اس زمانے میں تو/بس ”گماں“ ہی ”گماں“ تھی مری زندگی/کچھ بھی ”ممکن“ نہ تھا/ما سوا اک گزرتی ہوئی رات کے/صبح آئی تو پھر یوں لگا/جیسے خورشید اپنے افق سے فقط ایک لمحہ اٹھا/اورسارے ”طلوعوں“ کی دیرینہ تاریخ کو بھول کر/پھر افق میں وہیں غوطہ زن ہو گیا/۔۔۔"

جی ،زبان کا مواد اور فضا بے شک راشد کی سہی مگر جس طرح آنند نے اسے اپنے وجود اور اپنی ذات سے جوڑ ا ہے ، سب کچھ مختلف اور نیا نیا ہوگیا ہے۔ آخر میں آنند جی کا یہ سوال، ایک فیصلہ کی صورت سامنے آتا ہے کہ غالباً راشد کا "حسن کوزہ گر" کی تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ کوزے پکانے والی بھٹی کی سوئی ہوئی راکھ سے چند سلگتےہوئے انگار ے تلاش کیے جائیں اور ایک کہانی گھڑلی جائے ۔ راشد نے کہانی تو گھڑ لی مگر اسے وہ پذیرائی نہ ملی پائی جو اس طرح کے قصوں کا مقدر ہو جایا کرتی ہے ۔ ۔۔/ہاں، حسن کوزہ گر کی جہاں زاد کو/وہ رسائی نہ مل پائی جس کی وہ حق دار تھی/اور راشد کا فن/لوک قصّوں، اساطیر یاعشق کی/داستانوں کے فن سے بہت دور تھا/یہ بھی سچ ہے کہ راشد کی یہ چار نظمیں بہت خوب ہیں/پر مورخ کی یا قصّہ گو کی نہیں"

تو یوں ہے کہ وہ تفہیم جو میں نے راشد کی "حسن کوزہ گر" کے باب میں کی، اسے بھول جائیں اور آنند جی کی" ریدکتییو اید ابسردم" کی تھیوری کے اطلاق سے تخلیق ہونے والی "اے حسن کوزہ گر" کی روشنی میں اسے دیکھیں تو یہ نظم وہ رسائی پانے میں ناکام نظر آتی ہے ۔ وہ تو ہم سب کا اس کی طرف توجہ سے دیکھنا کو ئی کم اہم واقعہ نہیں ہے۔

احباب حاشیہ! ضروری نہیں ہوتا کہ ہم اس فکری نظام کو کہ جو کسی فن پارے میں سے چھلک رہا ہوتا ہے اسے مان لیاجائے ، اس منظق کو بھی تسلیم کرلیں جو اس فن پارے کو تخلیق کرنے والے کو عزیز ہوگئی تھی مگر جس قرینے کا وہ فن پارہ بنا ہے اپنے فضا کے اعتبار سے اور اپنی جمالیات کے اعتبار سے ، اسی سے اسے آنکنا چاہیئے ۔ "اے حسن کوزہ گر" اس اعتبار سے ایک کامیاب اور نمایاں نظم ہے کہ وہ اردو کی ایک نمایاں اور کامیاب اور بڑی نظم سے مکالمہ کرتی ہے ، اس کی تخلیقی فضا سے جڑتی بھی ہے اور اس کے آفاق وسیع بھی کرتی ہے ، اس کے معانی کی ایک جہت میں" اضافہ" کرکے نئے معنی ڈھالتی ہے اور اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ جب بھی "حسن کوزہ گر" کا حوالہ آئے گا ، اس " اے حسن کوزہ گر" کو بھی یاد کیا جائے گا ۔