Monday, May 14, 2012

سعادت حسن منٹو کی سوویں سالگرہ پرا کادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’یوم منٹو‘‘منعقدہ ،۱۱ مئی ۲۰۱۲ میں پڑھا گیا

منٹو کی سوویں سالگرہ: اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقدہ اجلاس سے محمد حمید شاہد مخاطب ہیں ، اسٹیج پر ڈاکٹر انوار احمد(صدر نشین مقتدرہ قومی زبان)، فتح محمد ملک(ریکٹر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی) اور عبدالحمید (صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان)

منٹوکا دِن

محمد حنید شاہد
خدا خدا کرکے اکادمی ادبیات ، پاکستان پر بھی دن آئے ہیں۔ اور ’دن آنا‘ کے معنی تو آپ کو آتے ہی ہوں گے ۔ ہاں ، اس پر دن آئے ہیں اور اس کے ناتواں تن میں بھی منٹو کے افسانے،’’ کھول دو‘‘ کی سکینہ کی طرح زندگی کی رمق جاگ اٹھی ہے ۔ وہی سکینہ، جس نے ڈاکٹر کی آواز’’کھول دو‘‘ پر اپنی شلوار یوں نیچے سر کائی تھی کہ پوری انسانیت ننگی ہونے لگی تھی اور افسانہ پڑھتے ہوئے ہمارا دھیان اُس کے بوڑھے باپ سراج الدین کی طرف نہیں گیا تھا جو اپنی بیٹی میں زندگی کی رمق پا کر خوشی سے چلانے لگا تھا کہ ہم تو اُن رضا کاروں کی سفاکی سے دہشت زدہ ہوگئے تھے جو ایک کھیت میں سہم کر چھپ جانے والی سکینہ کو تلاش کر کے اُسے دلاسے کے دام میں لے آئے تھے، اُس کی دہشت دور کرکے اُن میں سے ایک نے اُس کے کندھوں پر اپنا کوٹ بھی رکھ دیا تھا کہ دوپٹہ نہ ہونے کے سبب وہ اپنے سینے کو بار بار بانہوں سے ڈھانپے جا رہی تھی۔
یہ منٹو کا دن ہے۔
اور اکادمی اس خوشی میں منا رہی ہے کہ منٹو کو پیدا ہوئے سو سال ہو گئے ہیں
حالاں کہ پیدا ہونا اتنی خوشی کی بات نہیں ہوتی ، جتنا کہ مر کر بھی نہ مرنا ۔
سو سال پہلے تو سعادت حسن پیدا ہوا تھا، ۱۱ مئی ۱۹۱۲ کو پیدا ہونے والابچہ، جس کا منٹو نے اپنی ایک تحریر میں ’’خر ذات ‘‘ کہہ کر تمسخر اڑایا تھا ۔ ایک کشمیری ،غلام حسن منٹو کے گھر میں، بالکل اسی طرح پیداہونے والا بچہ جس طرح ، اسی روز ہزاروں ، لاکھوں بچے ، اپنی اپنی ماؤں کی کوکھوں سے چیختے کرلاتے پیدا ہو گئے تھے ۔جی ، مرنے کے لیے پیدا ۔ کہ اپنا وقت آنے پر مر گئے یا مررہے ہیں تھوڑا تھوڑا کرکے۔ مر رہے ہیں یا مار رہے ہیں ایک بارود بھری جیکٹ پہن کر یا ڈرون اُڑا اُڑاکر۔ بڑے ہو کر ایک ایک کرکے یا ایک ہی ہلے میں مرنے والے اور مار ڈالنے والے یہ سب بچے منٹو کا موضوع ہو سکتے تھے ،مگر ویسے نہیں جیسا کہ منٹو خود تھا ۔کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو ، کالی شلوار، یزید اور نمرود کی خدائی جیسی کہانیاں لکھنے کے بعدمحض ۴۲ سال کی عمر میں ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ کوقطرہ بھر شراب حلقوم میں اتارنے اور باقی باچھوں سے ادھرادھر بہانے کے بعد بہ ظاہر مرجانے مگر ققنس کی طرح پھر سے جی اٹھنے والا منٹو ۔
یہ منٹو کا دن ہے ، اس لیے نہیں کہ اس روز سعادت حسن پیدا ہوا تھا ، بلکہ اس لیے کہ یہ دن ان دنوں کے بیچ آیا ہے جو منٹو کے دن ہیں ، مر کر بھی نہ مرنے والے منٹو کے دن۔
میں انہیں منٹو کے دن اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پوری قوم ، یہ ملک اور اس کے ادارے بھی ان دنوں منٹو کی دہشت زدہ ’سکینہ‘ جیسے ہو گئے ہیں ، ’’کھول دو ‘‘ کی ایک آواز پر اپنی شلوار نیچے کھسکانے والی سکینہ کہ طرح ،سب کچھ کھلنے لگتا ہے ۔ چاہے وہ قومی حمیت کا بھرم ہو ، یا دہشت گرد جارح کے لیے بارود بھرے کنٹینرز کے لیے راستہ ۔ ہم ، جو سکینہ کے باپ جیسے ہیں ، ’ جھوم جھوم کر’ہم زندہ قوم ہیں ، کے نعرے لگا رہے ہیں ۔ جب کہ میں دیکھ رہا ہوں ، منٹو اپنے ٹائیپ رائیٹر پر بیٹھ گیا ہے ، اس کی انگلیاں چل رہی ہیں ، اور دَن دَن کے بیچ ایسی کہانی مکمل ہو رہی ہے کہ سب کے پسنے چھوٹ رہے ہیں ۔
منٹو تھا ہی ایسا ، نعرہ لگانے اور منافقت کا لبادہ اوڑھنے والے بے حمیت کرداروں کو یوں لکھ لینے والا کہ وہ ننگے ہوجائیں سب کے سامنے ۔ اب جب کہ اس’ کھول دو ‘کی آواز پر سب ننگے ہو گئے ہیں تو منٹو کی بابت کیوں نہ سوچیں ۔
منٹو جس کا یہ دن ہے ، بلکہ منٹو جس کے یہ دن ہیں ۔
دہشت زدہ ہونے والی اس قوم کے کندھوں پر اپنے دام دلاسے کا کوٹ ڈالنے والے نام نہاد قومی رضاکاروں کی محافظت میں در آنے والے عالمی دہشت گرد نے اسے پھر سے ریلے وینٹ کر دیا ہے ، جی ہاں،اپنی اپنی سیاسی اور فرقہ ورانہ شلواروں میں ہاتھ ڈال کر سب کے سامنے نجاست صاف کرنے والے ہمارے اپنے ملاؤں نے اور، ننگی ٹانگیں ، ناف پیالے ، چھاتیاں اور غلاظت کو میڈیا اور انٹر نیٹ کی کھڑکی سے ہمارے صحنوں میں پھینکنے والے چچا سام اور اس کے پیاروں نے منٹو کو، اس کے افسانوں کو اور چچا سام کے نام لکھے ہوئے خطوط کو آج سے ریلے وینٹ کر دیا ہے۔
منٹو کے قلم سے ٹپکا ہوا ’’نیا قانون ‘‘ کل کا افسانہ نہیں رہا ، ہماری پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قراردادوں اور عدالتی فیصلوں کے باوجود اسی طرح کی ناقابل برداشت صورت حال میں پڑے رہنے پر مجبور ہوجانے کی وجہ سے ، کہ جس کا شکارمنٹو کا تراشا ہوا شاہکار کردار’ منگو کوچوان‘ تھا، آج کا افسانہ ہوگیا ہے۔
اپنی سرزمین پر فوجی اڈوں کی سہولتیں فراہم کرنے کے وقوعے سے لے کر ڈو مور کے مطالبے پر مسلسل مرنے والی قوم کا معاملہ ہو یا اپنے دھتکارے جانے کے وقوعے کی تکرار ، ہر بارمنٹو یاد�آتا ہے اور اس کا افسانہ ’’ہتک‘‘ بھی ۔ جی ، وہی افسانہ ’’ہتک ‘‘، جس میں منٹو نے سوگندھی جیسی طوائف کا کردارلکھا تھا جو دھتکارے جانے پر یوں محسوس کرنے لگی تھی کہ جیسے وہ اندر سے خالی ہوگئی تھی ، جیسے مسافروں سے بھری ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافروں کو اتار کر لوہے کے شیڈ میں اکیلی کھڑی ہوگئی ہو ۔ ایک طوائف نے اپنی ہتک کو شدت سے محسوس کیا تھا اور منٹو نے طوائف کے بدن سے جیتی جاگتی عورت تلاش کر لی تھی جب کہ ہم اب اس منٹو کی تلاش میں ہیں کہ جو ہمارے اندر اپنی ہتک کا احساس جگا دے ، اس ضرورت نے منٹو کوآج سے ریلے وینٹ کر دیا ہے۔
منٹوریلے وینٹ تھا ، ہے اور رہے گا ،
سو یہ منٹو کے دن ہیں ۔
ابھی آدمی کو زندگی کے چلن سیکھنا ہیں ۔ اس کی موٹی کھال پر اور چرکے لگائے جانے کی ضرورت ہے ، اسے سیکھنا ہے کہ زندگی کو لطیف اور کثیف ،دونوں رُخوں سے کیسے دیکھا جاتا ہے۔ بظاہر مولوی، دلال،استاد اور طوائفیں ہو جانے والے کردار،محض افسانے کے کردار نہیں رہتے زندگی کی تفہیم بلکہ جیتی جاگتی زندگی کی اذیت ہو جاتے ہیں۔ ایسی زندگی جہاں کوئی آڑ نہیں ہوتی ، کوئی ملمع نہیں ہوتا ، کوئی ریا کاری نہیں ہوتی ، کچھ اخفا میں نہیں رہتا ، جیسی وہ ہوتی ہے ویسی ہی ، بلکہ اپنے اندر تک سے کاغذ پر اتر آتی ہے۔ یوں جسے حقیقت کی چولی اتر گئی ہو ۔
کہیں یہ حقیقت رومانی تجربے کا اظہار ہو جاتی ہے ۔ ’بیگو‘،’ مصری کی ڈلی‘ اور ’لالٹین ‘جیسے افسانوں میں اور کہیں ’ماتمی جلوس‘ ، ’شغل‘، ’نعرہ‘، ’نیا قانون ‘جیسے افسانوں میں سیاست کے مکر کو کھولتی ہے ۔ طوائفیں ،’ہتک‘،’دس روپے‘،’کالی شلوار‘ اور ’ہیجان ‘میں آکر عورت ہو جاتی ہیں اور ہمارے بدنوں سے ہیجان کا سارا گندا خون چرکے لگا لگاکر معاشرے کی گندی نالی میں بہا دیتی ہیں ۔ صاحبو ، یہ افسانے پڑھ کر ہمارے اندر آج بھی وہ احساس جاگنے لگتا ہے، جس سے انسان بنتا ہے ۔ خالص اور کھرا انسان۔ ’کھول دو‘ افسانے کا ذکر ہوا اور ’ٹھنڈا گوشت‘ کا بھی ،’ شریفن‘ کو یاد کریں اور’ موذیل‘ کو بھی یہ افسانے زمین کی تقسیم اور انسان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں یوں کہ اپنا سارا وزن انسان کے پلڑے میں ڈالتے ہیں ۔ منٹو سوئے پڑے آدمی کے اندر وار کرتا ہے ، اسے جگاتا ہے اور اس کی حسوں کو بھی ۔ وہ نہ جاگے تو ،’ سو کینڈل پاور کا بلب‘ جیسا افسانہ لکھتا ہے ، اس کے بدن پر ’ننگی تلواریں ‘ چلاتا ہے یوں جیسے اس نے ’ٹھنڈا گوشت‘ کے ایشور سنگھ کے بدن پر کلونت کور سے چرکے لگوائے تھے ۔
’ٹھنڈا گوشت‘ میں منٹو نے محض ایشور سنگھ جیسے کردار کے یخ ہاتھ میں کلونت کور کا گرما گرم ہاتھ نہیں تھمایا تھا ہمارے بدن بھی جھنجھوڑے تھے۔ مجھے تو آج بھی منٹو کے افسانے کے یہ کردار آنکھوں کے سامنے دِکھتے ہیں ۔ منٹو سارے ایشور سنگھوں سے کہتا ہے ، چل ترپ چال، پتے بہت پھینٹ چکا، اب پتا پھینک ۔ مگر صاحبو معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی محبتوں ، اپنے اپنے آدرشوں کے پاس اسی ایشور سنگھ کی طرح آتے ہیں، یخ بستہ بدنوں کے ساتھ ۔ یوں جیسے ہم نے بھی ایک دو نہیں سات سات قتل کیے ہوں ، اپنی اپنی کرپانوں سے اور ہمارے بدنوں میں برف پڑگئی ہو کہ ان میں اپنے خوابوں کی سی لڑکی بھی ہو، منٹو کے ایشور سنگھ کے مطابق ’بہت سندر‘۔
تو یوں ہے کہ یہ منٹو کے دن ہیں ، اور تقاضا کرتے ہیں کہ منٹو کو آج سے جوڑ کر پڑھا جائے ۔
مگر ہو یہ رہا ہے کہ ہم منٹو کو آج سے جوڑ کر پڑھنے کے بہ جائے اس کل سے جو ڑ کر پڑھنا چاہتے ہیں جسے خود منٹو اپنے دوست شیام سے آخری بار گلے ملتے ہوئے بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔
شیام کا ذکر ہوا تو یاد آتا ہے کچھ دن پہلے لاہور میں ، لمز کے تحت بیاد سعادت حسن منٹو ’’نیا اردو افسانہ کانفرنس ‘‘ ہوئی تھی ، جس میں شیام کا ذکر ہوا منٹو کا اور اس وسیلے سے نئے افسانے کا بھی ، کہ نیا افسانہ منٹو کے ساتھ جڑنے میں زیادہ توقیر محسوس کرتا ہے ۔ کشور ناہید نے رو زنامہ ’’جنگ‘‘20 اپریل 2012 کے ادارتی صفحے پراپنے کالم میں اس کا ذکر کیا تو اچھا لگا تھا مگر ایک دو مقامات ایسے آئے کہ الجھتا ہی چلا گیا ۔ اس حوالے سے اپنا فوری ردعمل ایک برقی خط میں پہلے دے چکا ہوں اور اب یہاں دہرائے دیتا ہوں ۔ کشور نے کہا تھا کہ منٹو کے بارے میں گفتگو تشنہ رہی تھی ۔ میں بھی وہاں تھا اور محسوس کیا تھا کہ بس ایک شمیم حنفی کامضمون بھرپورتھا ، انتظار حسین ،جو لکھ کر لائے تھے ،اسے پڑھا نہیں۔یاسمین حمید کے اصرار پر بھی، اور صاف کہہ دیا ’وہ تو اب نہیں پڑھوں گا‘۔ شاید جو فضا شمیم حنفی نے بنا دی تھی ،اس کا تقاضا بھی یہی ہوگا۔ منٹو کے حوالے سے دوسری نشست انگریزی میں تھی، جس میں انگریزی بہت تھی منٹو کم کم تھا۔ اس کا حوالہ کشور نے اپنے کالم میں دیا ۔ اس نشست میں ڈاکٹر فرخ خان نے وہ درفنتنی یا پھر درفنطنی چھوڑی تھی جو تھی تو خلاف متن مگرکشور کو لطف دے گئی تب ہی توکالم میں جانچے پرکھے بغیر اسے ’’نیا نکتہ‘‘ کہہ کر آگے بڑھادیا گیا ۔ جی، وہی جس میں منٹو کے افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ کے متن کے حوالے سے ایک مغالطہ پیدا کرنے کی سعی کی گئی تھی ۔ پہلے جس طرح کشور نے لکھا اور’’نیا نکتہ‘‘ رپورٹ کیا وہ ہو بہ ہونقل کر رہا ہوں۔
"ان[فرخ ] کا کہنا تھا کہ جس پاگل خانے کے کرداروں کو منٹو نے پیش کیا ہے اس میں صرف اکیلا بھشن سنگھ ہے،جس کو پاگل نہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنی بیٹی سے بھی ملتا ہے ،اس کو یاد بھی کرتا ہے۔ کسی پاگل کی سی حرکت بھی نہیں کرتا۔ بھشن سنگھ اس بات پرحیران ہے کہ کل تک ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ہندوستان میں تھااور آج وہی علاقہ پاکستان میں قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ مہاجرین کی ٹرین میں بھی سوار نہیں ہوتا۔ وہ ایک گم شدہ روح ہے جو سوچ رہا ہے ،وہ کہاں ہے۔ آخر وہ کھیت ،جنگل سب کچھ پار کرتا ہوا بارڈر پر پہنچ جاتا ہے اور''نو مینز لینڈ" پر گر کر مر جاتا ہے۔ کسی لکھنے والے نے اس کو ہندوؤں کا ایجنٹ کہا، کسی نے اس کو پاگل قرار دیا، اسے ایسا انسان سمجھنے سے سارا ادب گریزاں رہا ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آبادیوں کے تبادلے حتی کہ پاگلوں کے تبادلے ہو رہے ہیں آخر کیوں۔''
اچھا، جب ڈاکٹر فرخ ، یہ نیا نکتہ سجھانے کو اس افسانے کی نقل فضا میں لہرا رہے تھے تو میں اس بات پر کڑھ رہا تھا کہ ہمارے ہاں متن پڑھ کر اپنا ’’نیا نکتہ‘‘ کیوں نہیں ثابت کر رہے۔ خیر بہت ساری انگریزی تو بولی گئی مگر سارا منٹو منہا ہوگیا تھا اور پھر جب کشور نے اسی تعبیر کو لائق اعتنا جانا جس کا منٹو کے لکھے ہوئے متن سے کوئی علاقہ نہیں تھا ، اور اس میں کچھ اپنی جانب سے ایسے تائیدی اضافے کیے ، جو افسانے کے روح سے مطابقت نہیں رکھتے تھے تو ریکارڈ کی درستی ضروری ہو گئی ہے کہ یہ منٹو کے دن ہیں ۔
میں آپ کی توجہ درج ذیل نقاط کی جانب چاہوں گا۔
1۔ منٹو نے اپنے کردارکو''بھشن سنگھ'' نہیں بل کہ''بشن سنگھ'' لکھا تھا لہذا اس کا حوالہ اسی املا میں ہونا چاہیئے۔
2۔ ڈاکٹر فرخ کا یہ کہنا خلاف واقعہ ہے کہ بس اکیلا بشن سنگھ تھا جسے افسانے میں منٹو نے پاگل نہیں دکھایا/ بتایا۔ مثلاً افسانے کا یہ مقام دیکھیے:
'' بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ دار وں نے ،افسروں کو دے دلا کر،پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا اور یہ پاکستان کیا ہے لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی بے خبر تھے۔''
3۔ ڈاکٹر فرخ کا یہ کہنا کہ منٹو نے افسانے کے متن میں اپنے اس کردار یعنی بشن سنگھ کو پاگل نہیں دکھایا بھی نادرست ہے۔ افسانے میں اس سکھ کردار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ:
'' ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب جملے سننے میں آتے تھے ''اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف لالٹین ''۔
اور یہ کہ وہ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ منٹو نے تو اس کی ذہنی کیفیت بتانے کے لیے پہرے داروں کا مبالغے کی حد تک بڑھا ہوا یہ بیان بھی لکھ دیا تھا کہ بشن سنگھ کا یہ افسانوی کردار''پندرہ برس کے طویل عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں۔ مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ اور جب اس سے کچھ پوچھا جاتا تو وہ ''اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ '' کہتا جسے بعد میں نے ''اوف دی پاکستان'' کی بہ جائے''اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ'' کرلیا تھا۔
4۔ یادرہے منٹو نے افسانے کے لگ بھگ تین صفحات پر مشتمل ابتدائیے میں پاگل خانے میں موجود پاگلوں کے پاگل پن کے درجے بنائے تھے تو یہ نشان دہی بھی کر دی تھی کہ
’’پاگل خانے میں وہ سب ،جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا ،اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے!‘‘
گویا بشن سنگھ ایسا پاگل تھا، جس کا دماغ بہ قول منٹو پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا، وہ پاگل تھا مگر بے ضرر، اچھل کر درخت پر نہیں چڑھتا تھا، کسی سے الجھتا نہیں تھا ، گالم گلوچ کرتا نہ کسی کو مارتا تاہم اس کے اندر اس کا اپنا ٹوبہ ٹیک سنگھ بستا تھا، قیام پاکستان سے کئی سال پہلے والاٹوبہ ٹیک سنگھ ، جس میں اس کی زمینیں تھیں۔
5۔ منٹو کا اپنے ایک اور کردار کے ذریعے، بشن سنگھ کے بارے میں یہ بیان بھی ڈاکٹر فرخ کے نقطہ نظر کو رد کرنے کے لیے کافی ہے کہ
''ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔''
6۔ یہ بجا کہ اسے باقی پاگلوں کی طرح یا بر خلاف ملاقات آنے کا انتظار ہوتا تھا تاہم منٹو کے یہ جملے نگاہ میں رکھے بغیر آپ کیسے کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں کہ :
'' اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بش سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جواں ہوئی تب بھی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔''
7۔ یہ بات منٹو نے افسانے کے متن میں کئی وضاحتوں سے اچھی طرح سجھا دی ہے کہ بشن سنگھ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جڑا ہوا کردار تھا۔ زمین سے پاگل پنے کی حد تک جڑا ہوا شخص۔ ایسا شخص جس کے اندراس کی بالشت بالشت بڑھتی اور پندرہ سالوں میں جوان ہو جانے والی بیٹی کے آنسو کوئی جذباتی ابال پیدا نہ کر سکتے تھے۔ تاہم جسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فکر تھی۔ منٹو کے مطابق ، وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جہاں اس کی زمینیں تھیں۔
آپ اتفاق کریں گے کہ منٹو کی تحریروں سے اپنی مرضی کے معنی نکالنے کے لیے ایک ایسی متھ بنالی گئی ہے۔ منٹو پر بات کرنا فیشن ہوگیا ہے ، چونکانے والی بات مگر کسی حد تک متن اور منٹو سے منحرف بات ، کہ منٹو کے دن ہیں ۔
ایسے میں منٹو وہ رہتا ہی نہیں ہے جیسا کہ وہ ہمیں ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان آنے کے بعد والا منٹو، جس کے سامنے عجب سوالات تھے۔ جن میں دو ایک یوں بھی تھے:
'' کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی "۔۔۔اور..." آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے''
اتنے بنیادی سوالات والے منٹو کے تخلیقی وجود کو پوری طرح سمجھنے کے لیے منٹو کے دوست شیام کے حوالے سے اس کی ایک تحریر کی طرف توجہ چاہوں گا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران ایک مرتبہ منٹو نے اپنے دوست شیام سے پوچھا تھا؛
’’میں مسلمان ہوں۔ کیا تمہارا جی نہیں نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کردو‘‘
شیام نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا
’’اِس وقت نہیں۔۔۔ لیکن اْس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا۔۔۔ میں تمہیں قتل کر سکتا تھا‘‘
منٹو نے یہ سنا تو اس کے دل کو بہت دھچکا لگا تھا۔ جب ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مارے جارہے تھے تو شیام جیسے دوست کا"اِس وقت" کبھی بھی"اْس وقت" بن سکتا تھا۔ منٹو نے بہت غور کیا اور پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ شیام نے منٹو کو روکا نہیں۔ بندھا سامان دیکھ کر صرف اتنا کہا"چلے" اور منٹو کے "ہاں" کہنے پر اسے کو ئی حیرت نہیں ہوئی اس نے سامان بندھوانے میں منٹو کا ہاتھ بٹایا۔ برانڈی کی بوتل نکالی۔دوپیگ بنائے اور کہا "ہپ ٹلا" پھر قہقہے لگا کر سینے سے لگایااورکہا "سور کہیں کے" منٹو نے آنسووں کو روکا اور جواب دیا" پاکستان کے"۔۔۔ اور۔۔۔ سیدھا پاکستان چلا آیا۔
اس واقعہ کا ذکر بھی اس کانفرنس میں ہوا تھا
کہ وہ کانفرنس منٹو سے منسوب تھی ، تاہم اسے اپنے اپنے ڈھنگ سے تعبیر دی گئی تھی۔
منٹو کا ذکر ہوتا ہے ، توسب کی سوئی جنس اور تقسیم پر ٹکی رہتی ہے ، بات آگے نہیں بڑھتی۔
اور ہاں کشور کے کالم میں ایک اور اطلاع بھی تھی ۔ یہ کہ چائے کا وقفہ تھا ، ایک نوجوان کشور کے پاس آیا ، پوچھا:
’’تقسیم ہند کے علاوہ منٹو نے کیا لکھا ہے؟‘‘
تو میں نہیں جانتا کشور نے کیوں اس ضمن میں ’’موذیل‘‘ اور سیاہ حاشیے ‘‘ کو بھی گنوا دیا ۔ جب کہ مجھے ایسے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا نتساب ہی نگاہوں کے سامنے عجب سفاک منظر اچھال دیتا ہے :
’’اس آدمی کے نام
جس نے اپنی خونریزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
جن میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا ،مجھ سے قتل ہو گیا ہے۔‘‘
اورہاں لمز والے پہلے اجلاس کی بابت یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں ایک جملہ شمیم حنفی نے ایسا کہا کہ سب کھل کھلا اٹھے تھے۔ وہ جملہ فتح محمد ملک کے مضمون"ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ ایک نئی تعبیر" کے حوالے سے تھا جس میں ایسے بھی جملے موجود تھے، جو صرف اسلام آباد میں بیٹھ کر لکھے جا سکتے تھے ۔ مثلاً یہی کہ:
"پاکستان کا قیام بھلا پاگلوں کی سمجھ میں کیوں کر آسکتا تھا"۔
اسلام آباد میں بیٹھ کر لکھے گئے ایک جملے پر شمیم حنفی کا قہقہے اچھالتا جملہ بھی ایسا ہی تھا جسے دلی یا ممبئی میں لکھا جا سکتا تھا۔ صاحب ،جسے فتح محمد ملک کے ایسے جملوں پر گرفت کرنا ہے ضرور کرے، ظاہر ہے جو اُدھر رہ گئے ادھر نہیں آئے اُن کا بھی ایک نقطہ نظر تھا ،مگرنقطہ نظر کا اختلاف ادبی متن کی تحریف کی صورت میں یا پھر اسے سرے سے پس پشت ڈال کر من مانی تعبیر کی صورت میں نہیں نکلنا چاہیے۔
کہ صاحبو یہ منٹو کے دن ہیں ۔ منٹو کہیں گیا نہیں ہے یہیں موجود ہے اپنے افسانوں کے اصل متن کے ساتھ ۔
(سعادت حسن منٹو کی سوویں سالگرہ پرا کادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’یوم منٹو‘‘ کے نام سے،۱۱ مئی ۲۰۱۲ کو منعقدہ کانفرنس میں پڑھا گیا