Thursday, March 5, 2009

بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار

بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار
محمد حمید شاہد

میں نے اس موضوع کو کورے کا غذ پر لکھا ہی تھا کہ سارے وجود میں سنسنی دوڑ گئی ۔ خود پر جبر کرکے بدن میں تیرتی اس سنسناہٹ کو کا ٹا تو کھلا کہ یہ موضوع سیدھے سبھاﺅ کُھلنے کا ہے ہی نہیں ۔میں نے عنوان کا سوانگ بھرے اِس آدھے جملے کے آگے استفہامیہ علامت لگائی اور اِسے کھلا بھی رہنے دیا ‘ہر دو صورتوں میں یہ میری چھاتی چاٹے بنا ٹلتا ہی نہ تھا‘ سو میں نے یہ حیلہ کیا ہے کہ اس آدھے جملے کو بھی دو نصف حصوں میں بانٹ لیا ہے ۔ ایسا کرنے سے بدلتی ہوئی دنیا کی دہشت الگ ہو گئی ہے ۔ ادب کا کوئی کردار اس دہشت کے منظر میں ہے یا نہیں؟ اس سوال کو میں نے الگ کونے میں لڑھکا دیا ہے ۔
بدلتی ہوئی دنیا کیاہے ؟اور اس کے بدلنے کا پیمانہ کہاں سے میسر آتا ہے؟ کسی زمانی پڑاﺅ کے بیچ‘ لکیر ڈال کرسوچیں گے تو کچھ پلے نہ پڑے گا تو یوں کرتے ہیں کہ زمانے کو بدلتی زندگی سے تعبیر دے لیتے ہیں اور زندگی کو اس ( Litmus) لٹمس سے جو ایسڈ (acid solutions)میں پڑتا ہے تو سرخ ہو جاتا ہے اور الکلائین (alkaline solutions )میں ڈوبتا ہے تو رنگ بدل کر نیلا ہو جاتا ہے۔ رنگ بدلتی اس زندگی کو سمجھنے کے لیے میں نے پانچ دائرے لگائے ہیں یہ پانچوں دائرے اپنے اپنے مراکز پر گھومتے تو ہیں ایک دوسرے کو کاٹتے اندر تک گھستے اور جزوی طور پر منطبق بھی ہوتے ہیں اور جس علاقے میں ایک دائرے کا دوسرے پر انطباق ہوتا ہے وہیں ان کے بیچ ایک انفساخ کو بھی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔

بدلتی ہوئی زندگی پر ایک نظر

سب سے پہلے دائرے کے اندر میں نے ’فرد فرد زندگی‘ لکھا ہے اور اسے انسانی زندگی کی ابتدا ءجانا ہے جب ہر فرد اپنی ذات میں کلی طور آزاد تھا آپ اسے انسانی تہذیب کا اولین بیج کہہ سکتے ہیں ۔ دوسرے دائرے میں قبائلی زندگی لکھ لیجئے اور یہ تب کی بات ہے جب انسان نے اپنی ضرورتوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرلیا تھا۔ تب انہی انسانوں میں سے ایک اُن سب پر بااختیار ہوا اور اتنا اختیار حاصل کرلیا کہ وہی آزاد تھا اور پورا قبیلہ اس کا غلام ۔ان دو دائروں کے درمیان وہ انطباقی علاقہ پڑتا ہے جہاں زندگی جفت کے جوہر سے آشنا ہوئی تب عورت اور مرد ایک دوسرے پر حاوی نہیں تھے بلکہ وہ اپنے آزاد اشتراک سے زندگی کے تسلسل کے امین تھے۔ حکمرانی کا لوبھ تو قبیلوں کے پیٹرن بننے کے بعد انہوں نے سیکھا ۔قبیلوں کے اتصال اور مخاصمت کے عمل سے معاشرتی دائرہ وجود میں آیا۔ یہ وہ تیسرا دائرہ ہے جو دوسرے دائرے کے مشترکہ علاقے میں خاندان کی شباہت مکمل کرتا ہے اور چوتھے دائرے پرمنظبق ہوتے وقت تہذیب اور روایت کی نمود اور بالیدگی کے سوال سے جڑجاتا ہے ۔چوتھے دائرے میں تہذیبی زندگی کو جدید سائنسی زندگی کی جانب جست لگاتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس جست کی غُلبُلا میں انسانیت کے قدم تہذیب اور روایت کی سرزمین سے اُکھڑ گئے ہیں اور یہ ایسی زندگی ہے جوچوتھے اور پانچویں یعنی آخری دائرے کے مشترکہ علاقے میں پڑتی ہے ۔ جسے میں نے آخری دائرہ کہا ہے اس میں صارفی زندگی یا پھر معاشی بالادستوں کی چیرہ دستیوں کا زمانہ کہہ لیں.... اور صاحبویہی ہمارا بدلا ہوا زمانہ ہے۔
ّ اس صارفیت یا consurmerism والے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں چند ایسی ملٹی نیشنل کمپنیوں( جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سو کے لگ بھگ بنتی ہے ) کے ہاتھ سرمائے کا ارتکاز ہو گیا ہے جو اسے ضرب دیئے چلے جانے پر قادر ہیں۔ پیسہ پیسے کی افزائش کرتا ہے سو افزائش تو خوب ہوئی رہی ہے مگر ظلم یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ان کا مذہبی اور نسلی تعصب بھی پوری طرح بیدار‘متحرک اور کارفرما رہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر بہت سے فیصلے انہی کی ایما پر ہوتے ہیں حتی کہ واحد عالمی قوت بن جانے والے ملک کے اپنے داخلی سیاسی فیصلے ہوں یا بین الاقوامی تعلقات ۔پیدا واری مراکز پر قبضہ ہو یا نئی نئی مارکیٹوں کی دریافت اورتنظیم۔ حربی قوت کے استعمال کے فیصلے ہوں یا دست نگرحکومتوں میں ردوبدل کے معاملے ۔جمی جمائی تہذیبوں کو بنیاد پرستی کے طعنے سے زچ کرنے اور ان کا رخ موڑنے کا معاملہ ہو یا روایت اور عصری زندگی کے تال میل سے قوت پانے والے ادبی متون کو تخلیق کی بجائے فقط اسٹریکچر بنا دینے کا معاملہ ‘ہر کہیں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے تعصبات پوری طرح دخیل دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس جانب توجہ دلاتے ہوئے ایڈورڈ سعید نے اپنے مضمون میں ایک سیاسی تجزے کا حوالہ دیتے ہوئے نشان زد کیا تھاکہ عالمی سرمایہ کاری کے اس زمانے میں سرحدیں کمزور ہو گئی ہیں ‘الگ قومی شناخت پر چوٹ لگائی گئی ہے۔ معاشروں اور قومی اداروں کو داخلی سطح پر عدم استحکام سے دوچار کیا گیا ہے۔ مقامی ثقافتیں تہذیبی شناخت سے کٹ کر سرمائے کی اقلیم میں داخل ہو گئی ہیں۔ انفرادی میلانات کو قومی میلانات پر ترجیح دی جاتی ہے اور دنیا بھر کے پانچ میں سے صرف ایک انسان کو سرمائے کی بڑھوتری کے آلہ کار کے طور پر چن لیا گیا جب کہ چار بٹا پانچ دنیا ایسے اپاہج کی صورت ہو گئی ہے جس کا ایک ہاتھ آگے ہوتا ہے اور دوسرا پیچھے۔ صاحبو اسی اپاہج دنیا میں میں بھی رہتا ہوں اور آپ بھی اور وہ بھی جو ہم میں سے ہیں مگر ادھر سے آنے والی روشن خیالی اورعالمی ثقافت کے فروغ کے لیے چن لیے گئے ہیں ۔
تو معاملہ یہ ہے کہ میرے ہاں تو بدلے ہوئے زمانے کی کچھ ایسی تصویر بنتی ہے۔ میں نے اس تصویر کو اپنے ایک افسانے میں گوگول کے ہاں بننے والی اس نامکمل رہ جانے والی تصویر کا سا قرار دیا تھا جس کی شیطانی آنکھوں کو دیکھتے ہی ابکائی آجاتی تھی ۔اس تصویرکی شیطانی آنکھوں میں بلا کی چمک ہے اس چوندھ میں تہذیبی زندگی کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے یوں اب ہم عنوان کے دوسرے حصے سے جڑ جاتے ہیں کہ اس سمٹتے دائرے میں ادب کیا اپنی سانسوں کو بحال رکھ پائے گا یا یہ بھی بدلتے ہوئے زمانے کے سب سے کارگر حربے یعنی اشتہاریت اور صارفیت کا لقمہ بن جائے گا۔
یہیں سارتر کی ایک بات یاد آتی ہے اس نے لکھا تھا کہ
” امریکہ میں آپ سڑک پر اکیلے نہیں رہ سکتے ‘دیواریں تک آپ سی باتیں کرتی ہیں دائیں بائیں آپ کو تختوں پر لگے اشتہار‘ منور سائن بورڈ اور دکانوں کی بڑی بڑی آراستہ کھڑکیاں نظر آئیں گی جن میں ایک تو بڑی سی تصویر ہوتی ہے اور کچھ اعداد وشمار ۔ ان تصویروں میں آپ دیکھیں گے کہ ایک پریشان حال عورت ایک امریکن سپاہی کو اپنے ہونٹ پیش کر رہی ہے ۔ یا ایک ہوائی جہاز کسی شہر پر بمباری کر رہا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہوگا ”بم نہیں‘ انجیل“
سو یوں ہے کہ اب منہ پھاڑ کر اور سنجیدگی سے سوچے بنا ‘نصاب بدلنے کی بات ہوتی ہے ‘ روشن خیالی کا درس دیا جاتا ہے ‘ کھلی اور بے مہار ثقافتی پالیسی متشکل ہوتی ہے۔ کچھ ہم بدل چکے ہیں باقی کا کام جدید تر انفارمیشن کا سیلاب آسان بنا رہا ہے ۔ ہونٹوں ‘ بموں اور اشتہارات کی نفسیات نے ہماری تہذیبی روایت کو اتنے چرکے لگائے ہیں کہ ادبی سرگرمی کو سنجیدہ تخلیقی اور تہذیبی عمل سمجھنے کی بجائے ایک ثقافتی سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے‘ایسی سرگرمی جس کے مارکیٹ میں دام لگتے ہیں اورجس کے ذریعے صارفیت کے اس زمانے میں ساکھ بنائی جاسکتی ہے۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ ادب کا اگر کوئی کردار اس زمانے میں ہے تو وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے اس زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنا نہیں بلکہ اس کے منہ زور تھپیڑوں میں اپنی تہذیبی شناخت سے جڑے رہنے کے اصرار ہی سے بنتا ہے یہی طرز عمل ہمیں اور ہمارے ادب حتی کہ تمام انسانی تہذیبی مظاہر کوصارفیت سے بچا سکتا ہے ۔
٭٭٭

Sunday, March 1, 2009

نوجوان افسانہ نگاروں سے خطاب


افسانہ : اجزائے ترکیبی
محمد حمید شاہد

سب سے پہلے‘میں اس یونیورسٹی ‘اس اکادمی اور آج کی اس ورکشاپ کے منتظمین کا شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں کہ یوں مجھے نوجوان افسانہ نگاروںسے مخاطب ہونے کا موقع میسر ہورہاہے۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت پرلطف اوردل خوش کن ہے کہ نوجوان‘ جن کی دل چسپی اور تفریح کے لیے مارکیٹ اکانومی کو فروغ دینے والوں نے سو طرح کے جال پھیلا رکھے ہیں‘ وہ افسانہ پڑھنے اور لکھنے جیسی خالص تہذیبی اور تخلیقی سرگرمی میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ سب لکھنے کی طرف راغب ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ افسانہ جیسی بھید بھری صنف کے اجزائے ترکیبی کو جان سکیں اور سمجھ سکیں کہ افسانہ لکھنے کے کیا تقاضے ہیں۔
افسانہ نگاری تخلیقی عمل ہے
یہ راز کی بات گرہ میں باندھنے کے لائق ہے کہ یہ صنف صرف انہی قلم کاروں کو اپنے قریب پھٹکنے دیتی ہے جو لکھنے کو مشقت نہ سمجھتے ہوں اور جن کے دل اس صنف کی محبت کے فیضان سے سرشار ہوں ۔ یہی بے لوث اور بے ریا محبت‘ افسانہ لکھنے والوں کا مزاج بناتی ہے‘ اور رفتہ رفتہ اس صنف کے ان غیرمعمولی بھید بھنوروں کو کھول دیا کرتی ہے جنہیں کسی ورکشاپ میں سیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن یہاں بات سیکھنے سیکھانے کی ہو رہی ہے تو مجھے یہ وضاحت کرنی پڑ رہی ہے کہ افسانہ لکھنا ‘ تیکنیکی نہیں بل کہ تخلیقی سرگرمی ہے۔ ہنر کوئی سا بھی ہو جب اسے سیکھنے کے لیے مسلسل محنت اور ریاضت کی جائے تو ایک وقت ایسا آ ہی جاتا ہے کہ جب سیکھنے والے میں اسے ڈھنگ سے دہرائے چلے جانے کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے ۔ ادبی تخلیق اور بہ طورخاص افسانے کا معاملہ بالکل الگ ہے اگر کسی کے اندر اسے لکھنے اور اس کے ذریعے زندگی کی تفہیم کی لگن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنے ریاض کے ذریعے کرافٹ پر قدرت پالے اوریک سطحی کہانیوں کا ڈھیر لگا لے‘ ادبی فن پارے تخلیق کرنا اس کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ میں ایسے بہت سے قلم کاروں سے آگاہ ہوں جن کی شروع کی کارکردگی بہت عمدہ تھی مگرچوں کہ انہیں اس صنف کی لگن ودیعت نہ ہوئی تھی لہذا وہ بہت جلد ادھر سے اکتادوسری نوع کی تحریریں لکھنے کی طرف مایل ہوگئے یا پھر انہوں نے اپنے افسانوں کو بھی نظمیں یاانشایے بنالیا ۔
افسانہ اور تیکنیکی وسیلے
یہ جو میں نے کرافٹ کو تخلیقی عمل سے الگ کرکے دکھایا ہے تو یہیں بتاتا چلوں کہ میں کرافٹ کو غیر اہم نہیں سمجھتا ہوں۔ تا ہم میں اسے بنیادی جزو کی بہ جائے ایسے اجزاءمیں شمار کرتا ہوں جو افسانے کے باب میںدوسرے درجے میں آتے ہیں۔ کرافٹ کا تعلق دستی مہارت اور تدبیر سے ہوتا ہے ۔ اسی تدبیر میں کچھ چالاکی‘ تھوڑی سی ہوشیاری حتی کہ چٹکی بھر مکاری بھی شامل ہو جاتی ہے۔ تخلیق‘ تجربے ‘ مشاہدے‘احساس‘ تخیل اور لاشعور سے ایک ساتھ معاملہ کرتی ہے۔ اس میںبنانے اور ڈھالنے کے نہیں بل کہ پیدا کرنے اور عدم سے وجود میں لانے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ تخلیقی عمل اور کرافٹنگ کے درمیان بعض اوقات تفریق مشکل ہوجاتی ہے تاہم ایک لکھنے والے کو یہ جان لینا ہوگا کہ دونوں کا اثر افسانہ کے مواد‘زبان اور کہانی کے مزاج میں بہت گہرائی تک سرایت کر جاتا ہے ۔ جس شخص کے اپنے مزاج میں تخلیقیت کا فقدان ہو‘ اس کے مزاج میں تخلیقیت کو ٹپکانے میں اس طرح کی ورکشاپس بہ مشکل ہی کوئی مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔
میں اس طرح کی باتیں کرکے اس ورکشاپ کے نوجوان افسانہ نگاروں کے حوصلے توڑنا نہیں چاہتا کہ آپ لوگ تو افسانہ لکھنے کا ہنر سیکھنے کے لیے ملک کے دور دارز شہروں سے یہاں جمع ہوئے ہیں ۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں آپ کی اس لگن کی قدر کرتا ہوں اور اگر آپ کو تخلیقی تجربے سے وابستگی‘مادی وسائل کی بڑھوتری والی سرگرمیوں سے بڑھ کر لگتی ہے تو آپ کو میری باتوں سے دِل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ آپ بہت جلد ایسا افسانہ تخلیق کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جس کے تخلیق ہوتے ہی آپ کی روح سرشار ہو جائے گی۔
پڑھنا ہی لکھنے کی بنیاد ہوتا ہے
لیجئے ہم نے فرض کرلیا کہ آپ سب کا مزاج اس صنف سے ہم آہنگ ہے اور اس کے تخلیقی تجربے سے لگن بھی آپ کو ودیعت ہو چکی ہے ۔ یہ سب کچھ فرض کر لینے کے بعد‘ حتی کہ اس کا یقین کر لینے کے بعد بھی‘ ایک خدشہ دامن گیر رہے گا جس کا اظہار اسی ابتدائی مرحلے پر مناسب رہے گا۔ جی ‘ افسانے کی صنف سے ہم آہنگ یہ مزاج اپنی جگہ قدرت کا بہت بڑا انعام سہی مگر یہ اس وقت تک تخلیقی عمل میں معاون نہیں بنے گا جب تک اسے مسلسل مطالعے ‘وسیع مشاہدے ‘ لکھنے‘ لکھ کر کاٹ دینے اور ناکام تحریروں سے دامن کشاں ہوکر ہر بار نیا لکھنے کی تاہنگ سے وابستہ رہ کرتازہ نہ رکھا جائے گا۔پڑھنا ہی لکھنے کی بنیاد ہوتا ہے۔ صرف دنیا بھر کے افسانے پڑھنا ہی کافی نہیں ہے ان علوم کو ضرورت کی حد تک پڑھنا بھی ضروری ہے جنہیں ان افسانوں میں برتا گیا ہوتا ہے۔ بار بار پڑھنا اور افسانوں کا اپنے تئیں تجزیہ کرنا کہ فن پارے میں کرادر کس طرح کام کر رہے ہیں پلاٹ کیا ہے اور ماحول کس طرح بنتا ہے‘زبان کس طرح کی ہے وقت کو کس طرح برتا گیا ہے اور اسے برتتے ہوئے وقت سے کون سا زمانہ اجالا گیا ہے ۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ جب کوئی افسانہ توجہ سے پڑھا جائے گا تو وہ ایک لکھنے والے کوچپکے سے سجھا دے گا ۔ باریک بینی سے سارے عمل کاتجز یہ لکھنے والے کے اندر کسی متن کو ایک سے زیادہ طریقوں سے ترتیب دے سکنے کا اعتماد بھی پیدا کرتا ہے۔
تجربہ اور مشاہدہ
ایک زندگی تو وہ ہوتی ہے جو آپ کے براہ راست تجربے میں آتی ہے ۔ خود آپ پر گزر رہی ہوتی ہے ۔ یا پھر آپ کے انتہائی قریبی ایسے لوگوں پر گزر رہی ہوتی ہے جن کی زندگی کسی نہ کسی حوالے سے آپ کی زندگی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ۔ آپ کا اپنا گھرہے ‘اس میں رہنے والے افراد ہیں‘ ان افراد کے اپنے اپنے حسی اور جذباتی علاقے ہیں‘ ان سب کا ماضی ہے اوراس ماضی سے وابستہ کہانیاں ہیں ۔ اپنے خاندان کے علاوہ آپ ایک محلے میں رہتے ہیں ایک اسکول‘ کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔ آپ سفر کرتے ہیں ‘لوگوں سے ملتے ہیں ‘یوں آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بہت ساری شخصیات حصہ لے رہی ہوتی ہیں ۔ شخصیت سازی کے اس عمل میں ایک تخلیقی مزاج رکھنے والا شخص ایک اور طرح کا کام بھی کررہا ہوتا ہے وہ ان ساری شخصیات کازائچہ بنا کر اپنے لاشعور کے دفتر کے حوالے کرتا چلا جاتا ہے ۔ غیر تخلیقی آدمی کا لاشعور ٹھس ہوتا ہے ایسی بنجر زمین کی طرح جو اصل بیج کو بھی اپنے اندر دبا کر مار دیا کرتی ہے ۔ مگر تخلیقی آدمی اسی تجربے اور مشاہدے کے اجزاءکو باہم ضرب دیتا چلا جاتا اور اس سے زندگی کی تخلیق نو کا اہتمام کرتاہے ۔ زندگی کو سطح سے دیکھنا‘ معاملات کو سرسری لینا‘ سانحات کو وقت گزرنے پر اپنی شخصیت سے منہا کر دینا‘ ایسے افراد کا وتیرہ نہیں ہوا کرتاجو تخلیقی عمل سے جڑنا چاہتے ہیں ۔
دیکھاجائے تو تجربے‘ مطالعے اور مشاہدے کا جوہر ہی کسی مہربان لمحے میں کسی افسانے کا آغاز بنا کرتا ہے۔ میں اس جوہر کو ایسا وجود حقیقی قرار دیتا ہے ہوں جو کسی نہ کسی بالائی درجے میں مطلق حقیقت کا جزو ہوکر عمل خیر کا ایک رنگ ہو جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ تخلیقی عمل کو دوسرے معنوں میں خیر سے جڑنا قرار دیا گیا ہے ۔ تجربے‘ مطالعے اور مشاہدے کا یہ جوہر کسی بھی افسانے کی غایت استواری بنتے سمے ہی کہانی کا مزاج اور اس کے دائرہ عمل کو بھی متعین کردیا کرتا ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو ایک بیج کی طرح تخلیقی عمل کو آغاز دینے والے جوہر میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ لکھنے والے کو اس کے عمومی چلن سے برگشتہ کرکے اس افسانے کے لیے خاص تخلیقی عمل سے وابستہ آہنگ سے جوڑ دے۔
اجزائے ترکیبی:فیصلے نہیں‘محض تخمینے
جی ‘میں نے ہر افسانے کے لیے الگ آہنگ کی بات کی ہے اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اس جادوئی صنف کے اجزائے ترکیبی الگ الگ کرکے دکھانے کا دعوا رکھتے ہیں ۔ میں تو اس باب میں تخمینے ہی لگا سکتا ہے ۔ اور جوں ہی ایک افسانے کی بابت تخمینہ لگانے کے بعد کسی دوسرے افسانے کوپڑھتا ہوں تو پہلے والے تخمینے کے اجزاءاور ان کی ترکیب میں کمی بیشی کرنا پڑتی ہے۔ میں اس مرحلے پر آپ کو چوکنا کر دینا چاہتا ہوں کہ افسانے کے اجزائے ترکیبی سیکھنے کی حد تک بہت اہم ہیں اور یہ مشغلہ ہے بھی خوب ۔ وہ لوگ جو ابھی افسانہ لکھنے کے تجربے سے گزرنے کی تیاری کے مرحلے میں ہیں ‘ ان کا یوں جاننا کسی حد تک ان کے اندر اعتماد بھی پیدا کر دے گا۔ تاہم ایک ایسے شخص کے لیے جو افسانہ لکھنے کی نیت باندھ کر سامنے کورا کاغذ دھرے بیٹھا ہے یا وہ’ کی بورڈ‘ پر بیٹھا پہلا جملہ لکھنا چاہتا ہو ‘اس کے لیے اہم یہی ہے کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔ وہ جو میں بتا چکا ہوں اور وہ بھی جو میں آگے چل کر بتانے والا ہوں کہ ہر نیا افسانہ ان اجزائے ترکیبی کے حوالے سے نئے فیصلے صادر کیا کرتا ہے ۔
حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا؟
افسانہ کیا ہے ؟ مناسب ہوگا کہ یہیں اس سوال سے نمٹ لیا جائے۔ افسانہ کا لفظ حقیقت کے متضاد کے طور پر رواج پا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تویہ دونوں لفظ جس مفہوم میں لغت سے برآمد ہوتے ہیں‘ اپنے اصطلاحی معنوں میں ویسے ہیں نہیں ۔ میں نے جب جب افسانہ کو ایک ادبی صنف کے طور پردیکھا ہے مجھے یہ صنف حقیقت کو اپنے اندر سموتی اور جذب کرتی نظر آئی ہے ۔ ایسے میں آپ یہ کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت ‘جو افسانے کا جزو ہے اس کی ضد بھی ہے۔ اضداد کا قیام ہی فصل اور تقابل سے بنتا ہے جب کہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حقیقت جزو ہو کرافسانے میں جذب ہورہی ہے ۔ حقیقت اور افسانے کے باب میں ہم جب تک ڈھنگ سے سوچنے کے قابل نہیں ہو جاتے ‘ ناقص فیصلے دیتے رہیں گے۔ ایسے میں اس صنف کے عناصر کو ڈھنگ سے شناخت کرنا اور ان کی کارکردگی کو سمجھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
ایک لمحے کے لیے یوں کرتے ہیں کہ افسانہ کو ایک تصوراتی زندگی کا نقشہ سمجھنے کی بجائے زندگی کی تخلیق نوقرار دیتے ہیں ۔ ایسی زندگی جو پرکھی ہوئی اور برتی ہوئی زندگی کے بیان تک محدود نہیں رہتی ‘ ایک نئی ترکیب میں زندگی کو تخلیق کرتی ہے اور ان علاقوں کو بھی اس کا حصہ بنا دیتی ہے جو ہمارے علم اور تجربے میںنہ آسکے تھے۔ اگر ایسا ہے اور یقینا تخلیقی تجربے سے ایسا ممکن ہوجاتا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ افسانے کا سچ عام زندگی کے تجربے میں آنے والے سچ سے کہیںبڑا سچ ہوتا ہے۔ کسی فن کار کاتخلیقی وجدان اور کائنات کی کل کو کلاوے میں لے لینے والا تصور ‘جب کسی افسانے میں‘تجربے میں آنے والی جزوی حقیقت پر اکتفاکرنے سے ا نکار کر دیتا ہے تو ایسے میںلازم ٹھہرتا ہے کہ حقیقت کے اس خام تصور کو بھی لائق اعتنا نہ سمجھا جائے جس میں برتی ہوئی باسی زندگی اور اس کے مظاہر ہی کو حقیقت تسلیم کرلیا جاتا ہے ۔
چار بنیادی باتیں
افسانے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ وہ سوال جو آپ نے میرے سامنے رکھا تھا ابھی تک اپنی جگہ ویسے کا ویسا قائم ہے حالاں کہ اب تک ہم یہ آنک چکے ہیں کہ افسانہ لکھنے کے لیے:
۱۔ تخلیقی مزاج رکھنے والا فن کاردرکار ہوتا ہے ۔
۲۔ تخلیقی مزاج رکھنے والے اس فن کارکو مشاہدے‘ مطالعے اور ریاض کے مراحل سے گزرکر لکھنے کی طرف راغب ہوناہوگا۔
۳۔تخلیقی عمل کے شروع ہوتے ہی ‘بنے بنائے سانچوں کو اگر توڑنا پڑے تو ایسا کرنے کا تخلیق کار میں حوصلہ ہوگا۔
۴۔ لکھنے والے کو افسانہ اور حقیقت کے بارے میں اپنے عمومی تصور کوجھٹکنا ہوگا۔
اوپر بیان کی گئی صورتیں‘ افسانے کے اجزائے ترکیبی والے باب کی تمہیدبن سکتی ہیں اور اسی تمہیدی حصے میں گفت گو کے اس دوسرے مرحلے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو میں اب کرنے جارہا ہوں۔
افسانہ اور اس کا قاری
میں گفت گو کے اس مرحلے پر زندگی کے عمومی سچ اور افسانے کے سچ کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے اس علاقے کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں جس میں کسی افسانے اور اس کے قاری کے درمیان ایک خالص اعتماد کا رشتہ استوار ہوجایاکرتا ہے ۔ قاری کے اس رشتے کی نوعیت اس رشتے سے یکسر مختلف ہوتی ہے جو ایک نظم اور اس کے قاری کے درمیان بنتا ہے ۔ آپ اس رشتے کوایک اور انتہا پر اس وقت دیکھ سکتے ہیں کہ جب یہی قاری ایک غیر ادبی متن کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بات گرہ میں باندھ لیں کہ یہ افسانے کی عطا ہے کہ یہ اپنے لکھنے والے اورپڑھنے والے‘ دونوں کوان کی اپنی زندگیوں سے ایک ہی لمحے میں جوڑتی بھی ہے اور اس سے آگے گزر کر ایک نئی زندگی کے تجربے سے گزارتی بھی ہے ۔ غیر ادبی متن کا مطالعہ ‘ چاہے وہ چونکا دینے والی خبر جیسا ہو یا ایک قانونی دستاویز جیسا‘ ایک یادداشت ہو یا واقعات کا تسلسل ‘ ایسے سارے متون قاری کی اپنی زندگی کے گودے سے وہ رشتہ استوار نہیں کرپاتے جو افسانہ کرتا ہے ۔
ایک نظم کارشتہ اگرچہ افسانے کی طرح قاری کے باطن میں قائم ہوتا ہے مگر اس کی صورت بھی زندگی کی ازسر تعمیر جیسی نہیں ہوتی۔ اس میں سے تصور اور احساس کا شدید دھارا بہت کچھ منہا کر دیا کرتا ہے۔
یہاں میں افسانے کے اس تخلیقی جوہر کی بات کر رہا ہوں جس میں جذبات کو سطح پر نہیں برتا جاتا ۔ جذبات کو سطح تک اچھال دینا تو شاعری کا وتیرہ ہوا کرتا ہے ۔ افسانہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تجسس ہو یا ڈرامہ ‘ تنازع ہو یا تصادم ‘جذبے کو بہت گہرائی میں بہنا اور چپکے سے قاری کے احساس کا حصہ ہوجانا ہوگا‘ کچھ اس طرح کہ یہ احساس‘ اس کے اپنے جذبات کو ایک جہت دینے کا جواز بن سکے ۔ مناسب یہی ہوتا ہے کہ کہ افسانے کا متن قاری کو کہنیاں مار مار کر ایک طرف دھکیلتا نظر نہ آئے۔ اس کے خیالات کو بدلنے کے لیے نصیحتیں نہ شروع کردے۔ قاری کی انا کو ٹھیس نہ پہنچائے اور اسے یہ طعنے بھی نہ دے کہ وہ غلط فیصلے کیے بیٹھا ہے ۔ اسے اپنا کام اندر ہی اندر اور چپکے چپکے کرنا ہوتا ہے ۔ دیکھا جائے توافسانے کو یہ کام اپنے پہلے ہی جملے سے ہی انجام دینے کیے تیار رہنا ہوتا ہے یہ احساس دلائے بغیر کہ قاری کے حسی علاقوں کو مفتوح کرنے کے لیے وہ چوکس ہے ۔
پہلا جملہ
میرے نزدیک افسانے کی تخلیق میں اور اس کے مزاج کو متعین کرنے میں پہلا جملہ بہت اہم ہوتا ہے ۔ جدید زمانے تک آتے آتے افسانے کا آغاز اس کے انجام کی طرح اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سیدھے اورسپاٹ جملے سے کہانی کو آغاز دے لیا جاتا‘ یوں کہ بالعموم پہلے ہی جملے سے کہانی کے زمان و مکان کا تعین ہو جاتا۔ ”ایک تھا بادشاہ‘ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ “یا پھر ”ایک دفعہ کا ذکر ہے“ جیسے جملوں سے آغاز پانے والی ان کہانیوں میں وقت بھی ایک ہی دھج اور ایک ترتیب سے چلتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ لکھنے والوں نے بھی نئے نئے ڈھنگ ایجاد کر لیے ہیں ۔ اب تو ہر نیا افسانہ احساس کی سطحوں پر نئے وقت کا ردّا چڑھانے کے لیے نیا پن لے کر آتا ہے۔
اب یہ ضروری نہیں رہا کہ کہانی میں واقعہ کی جو ترتیب بنتی ہے اسے افسانے میں عین مین ویسا ہی رکھا جائے ۔ افسانے کے اندر کہانی میں واقعات کی اکائیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنی ترتیب بدل لیتی ہیں اور اس بدلی ہوئی ترتیب سے اصل تنازع کے اندر تناﺅ پیدا کیا جاتا ہے ۔ کچھ لکھنے والے اس تناﺅ کے وسطی علاقے سے جڑی ہوئی کیفیت سے جملہ بناتے اور اسے آغاز میں رکھ لیتے ہیں۔ کچھ لکھنے والے اس تناﺅ کو معدوم ہونے دیتے ہیں اور لگ بھگ جہاں کہانی ایک نئی کیفیت میں داخل ہوتی ہے وہاں سے کہانی کو آغاز دے کر واپس پلٹتے ہیں اور یوں اپنی کہانی میں دل چسپی بڑھانے کا ساماں کیے چلے جاتے ہیں ۔
افسانہ جہاں سے بھی آغاز پائے اس کاا ہتمام کیا جاتا ہے کہ پہلا جملہ قاری کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور اگر پہلا جملہ سادہ ہو تو افتتاحی پیرا گراف کی ساخت میں یہ قرینہ رکھ لیا جاتا ہے کہ معنی کا بہاﺅ قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ یاد رکھیے کہ کم زور اور ڈھیلا ڈھالا آغاز اچھی بھلی کہانی سے قاری کو برگشتہ کر سکتا ہے اور چست آغاز کم زور کہانی میں بھی قاری کی دل چسپی کو بڑھا سکتا ہے۔
اختتامی حصہ
افسانے کے آغاز کی طرح اس کی کامیابی اور ناکامی کے باب میں اس کے اختتامی حصے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات ذہن میں حاضر رہنی چاہیے کہ قاری جیسے تیسے افسانہ پڑھنا شروع کردے تو اس کا کم زور آغاز بھول سکتا ہے مگر کہانی کا کم زورانجام اس کی یادداشت سے کبھی محو نہ ہوگا۔
ابھی ابھی میں کہہ رہا تھا کہ افسانہ کہیں سے بھی آغاز پا سکتا ہے‘ اس میں اس بات کا اضافہ کر لیجئے کہ افسانہ نگار کو یہ قرینہ سیکھنا ہوگا کہ وہ اس آغاز کو‘ کہ جسے افسانے میں التوا میں ڈال دیا گیا ہوتا ہے‘ آگے چل کر کہانی کے وسط یا پھر اختتامی حصے میںکہانی کے بہاﺅ کے اندرجوڑ دے‘ یوں کہ یہ جوڑ الگ سے دکھائی نہ دے ۔ اس باب میں یہ احتیاط لازم ہو جاتی ہے کہ کہانی کا یہ آغاز افسانے کے اندر رخنہ بن کر بھی ظاہر نہ ہو۔
بات اختتامیہ کی ہو رہی تھی اور مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ افسانے کا اختتام ضروری نہیں ہے کہ تنازع کے تناﺅ کے نزول کا لازماً آخری کنارہ ہو۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ کہانی اس سے آگے ایک بھی جملہ نہیں بڑھنی چاہئے ۔ کچھ لوگ کہانی کے آخر میں نتیجہ سمجھانے کے جتن کرنے لگتے ہیں یاپھر انہیں اپنی کہانی پر اعتماد نہیں ہوتا اور اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بات مبہم رہ گئی ہے‘ لہذا وضاحتیں کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے لوگ افسانے کا سارا لطف غارت کر دیا کرتے ہیں۔ افسانہ لکھنے والے کوقاری سے معاملہ متن کی باطنی سطح پرکرنا ہوتا ہے ۔ قاری کی حسیات کو متنبہ کیے بغیر ایک رخ کی جانب اشارہ کر دینے سے معنوی سطح پر کچھ زیادہ گنجائش پیدا ہوجاتی ہے کہ اس حیلے سے قاری جس نتیجے پر پہنچتا ہے وہ افسانہ نگار سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوتا ۔دیکھا گیا ہے کہ افسانہ نگار کے اس قرینے سے قاری اس دھند جیسی کیفیت سے اپنے تخیل کو وابستہ کرلیتاہے اور اس میں سے برآمد ہونے والے نتیجے کو اپنی کوشش خیال کرکے زیادہ لطف لیتا ہے۔ یاد رہے بہت کھلا ‘ننگااور فوری طور پر مطمئن کر دینے والا انجام افسانے کے حق میں ہمیشہ اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ بالعموم ایسے افسانے بہت جلد قاری کے ذہن سے اترجایا کرتے ہیں جو اسے کچھ دیر کے لیے سوچنے پر نہیں اکساتے یا پھر اس کی حسیات پر چرکے نہیں لگاتے ۔ کھلے انجام کے مقابلے میں ذرا دھندلے انجام والا افسانہ قاری کو گہرا جمالیاتی حظ اٹھانے کا موقع فراہم کیا کرتا ہے۔
افسانہ اور کہانی
میں اپنی ساری گفت گو میں افسانے اور کہانی کو الگ الگ مفہوم میں استعمال کرتا آیا ہوں ۔ ممکن ہے آپ کے ذہنوں میں اس حوالے سے کوئی الجھن ہو ۔ یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں کہانی کو عام طور پر افسانے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ادبی سطح پر افسانہ بھی ایک کہانی ہی ہوتا ہے ۔ لیکن چوں کہ یہاں گفت گو تیکنیکی ہو رہی ہے تو فکشن کے حوالے سے اس فرق کو جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ فکشن کے ایک فن پارے میں‘ چاہے وہ افسانہ ہو یا ناول کہانی ایک جزو کے طور پر موجود رہتی ہے ۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ کہانی تو افسانے کا حصہ ہوتی ہے افسانہ کہانی کا حصہ نہیں ہوتا ۔ کہانی کے ساتھ وہ اجزاءجن کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں یا وہ عناصر جن کو ہم آگے چل کر شناخت کریں گے(سب یاان میں سے چند ) ایک تناسب میں آکر ہی افسانہ بناپاتے ہیں ۔ تو یوں ہے کہ میں اس گفت گو میں شعوری طور پر کہانی کو افسانے کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے سے مجتنب رہا ہوں اورباقی ماندہ گفت گو میں بھی اس سے اجتناب کروں گا ۔ اس ساری گفت گو میں کہانی‘ افسانے کے اندر واقعات کی ترتیب سے بننے والے جزو کے طور پر ہی آئے گی۔
واقعہ کیسے قائم ہوتا ہے؟
افسانے کی کہانی میں واقعہ کیسے قائم ہوتا ہے ؟ یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے ۔ میں اس بابت غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ وقت کے کسی دورانیے میں ایک متعین سمت میں حرکت‘یہاں تک کہ اس حرکت کی سمت بدل جائے ایک واقعہ کہلائے گا ۔ دوسرا واقعہ رخ بدل چکنے کے بعد سے ماپا جائے گا ۔ گویا دوسرے لفظوں میں کہانی میں واقعہ ایک کیفیت ‘صورتحال یا احساس کے دوسری صورت حال ‘کیفیت یا احساس میں ڈھلنے سے متشکل ہوتا ہے ۔ میں نے اپنی کسی اور گفت گو میں کہا تھا کہ کوئی بھی واقعہ خبر بن کر ایک اخبار میں چھپنے سے پہلے اُس تخلیقی عمل سے دوچار نہیں ہوتا جس کا اِمکان فکشن کے اندر ہوتا ہے ۔ یہاں ”اِمکان“ کا لفظ جان بوجھ کر اِستعمال کیا گیاہے اور اِس کا سبب یہ ہے کہ ایک خبر عین مین ایک مکمل کہانی ہوسکتی ہے یا پھر اسی خبر کو کہانی کا جزو بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن افسانے کی مجموعی فضا میں اُس کی جُون بدل جاتی ہے ۔ یہاں پہنچتے ہی خبر کی طرح ضبط تحریر میں لایا گیا واقعہ وقت اور حقیقت کوحصار میں لے لیتا ہے۔ یوں افسانے میں پہنچتے ہی باہم جڑ کرکہانی بننے والے واقعات بظاہرعام سے واقعات ہو کر بھی عام نہیں رہتے ان کی کیمسٹری بدل جاتی ہے ۔ اگرکوشش کرکے واقعہ کے خام اور عمومی تصور سے دَامن بچالیا جائے تو سہولت سے اُس وقت اور واقعے کو بھی گرفت میں لیا جاسکتا ہے جو اَپنے خارج میں تو ٹھہرا ہوا ہوتا ہے مگر باطنی ترکیب اور ترتیب میں حرکی ہوتا ہے۔
تحرک کے قرینے
افسانے میں تحرک کا احساس اور معنیاتی نظام سے پیوستہ بیانیے کی رفتار بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہم اسے نشان زد کر چکے ہیں کہ واقعات کا بہاﺅ کہانی میں تحرک پیدا کرتا ہے اور ہم یہ بھی طے کر چکے ہیں کہ خیال اور احساس کے ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں ڈھلنے سے بھی واقعہ متشکل ہو سکتا ہے ۔ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس متحرک بیانیے /متن کی رفتار کو تیز یا مدہم کیسے کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے یقینا کئی افسانے پڑھ رکھے ہوں گے ۔ ان افسانوں کویاد کرکے اب بھی بہ سہولت آنک سکتے ہوںگے کہ ان میں سے تو کچھ ایسے تھے جنہیں بہت اچھی طرح لکھاگیا تھا۔ انہیں ان کی زبان و بیان سے جدا کرکے پوری طرح دہرایا نہیں جاسکتا ۔ دہراتے ہوئے کچھ نہ کچھ ان کہا رہ جاتا ہے۔ تاہم ان کی تاثیر بہت گہری اور جمالیاتی لطف ابھی تک تازہ ہوگا۔ اس کے مقابلے میں کچھ اور افسانے بھی ہوں گے کہ جنہیں پڑھتے ہوئے کہانی تو قائم ہو گئی ہوگی مگرپڑھ چکنے کے بعد بیانیہ اور متنی ترتیب دھواں بن کر اڑ گئی ہو گی۔ پہلی طرح کے افسانوں کا جب آپ ٹھہر ٹھہر کر مطالعہ کریں گے تو یہ بھید بھی پا لیں گے کہ ان افسانوں کا بیانیہ سیدھی لکیر میں چلتا ہے نہ اس کی رفتار ایک سی ہوتی ہے۔
افسانہ پڑھنے والے اور اسے لکھنے والے جانتے ہیں کہ اس صنف میں محدود متن کے اندر ہی کہانی/کہانیوں‘ کردار/کرداروں اور بیانیے کو اپنے جوہر دکھانے ہوتے ہیں ۔ افسانے کے بارے میں یہ فیصلہ دےا جاتا رہا ہے کہ اسے اس قدر طویل نہیں ہوناچاہیے کہ ایک نشست میں نہ پڑھا جاسکے۔ لفظوں کی تعداد کاتخمینہ لگا کر بھی بتایا گیا ہے کہ اس میں ایک ہزار سے بیس ہزار تک کے الفاظ مناسب رہےں گے ۔ افسانہ کتنا طویل ہو ‘سچ پوچھیں تو اس کا فیصلہ خود افسانے کو کرنا ہوتا ہے اور جب تک وہ مکمل نہیں ہولیتا اس جانب دھیان ہی نہیں لے جاتا ۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات یہ حدیں‘ افسانے کی اسی بے نیازی کے زیر اثر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ اسی طرح افسانے میں کم کرداروں سے کہانی چلائی جاتی ہے۔ بعض اوقات کوئی ایک کردار بھی جزوی شناخت بناکر کہانی کو مکمل کر دیا کرتا ہے ۔ اسی طرح محدود مناظر سے کہانی کا ماحول بنایا جاتا ہے اور اس باب میں زمان مکان کو بھی کفایت کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ ایسے میں متن کی رفتار ایک سی رہے تو افسانے کے سپاٹ اور یک سطحی رہ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ متن کو تخلیقی سطح پر برتنے والا جانتا ہے کہ اس کے تحرک کو مدہم یا تیز کیسے کیا جاسکتا ہے۔
ایک سے زیادہ سطحوں پر بنت
افسانے کامتن ایک سے زیادہ سطحوں پر بُنا جاتا ہے ۔ خارجی سطح ایک واقعہ کے دوسرے واقعہ سے جڑ کر بنتی ہے جب کہ باطن میں احساس اور معنیات کے دھارے بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ بیانیے کو مختلف سطحوں پر برتنے کے لیے لازم ہے کہ زبان کی کارکردگی نگاہ میں رہے ۔ لگ بھگ ایک سے معنی دینے والے الفاظ کسی جملے میں استعمال کے قرینے سے اپنامزاج بدل لیا کرتے ہیں ۔ لفظوں کی صوتیات کو نگاہ میں رکھ کر اورایک جیسی اصوات کو دہرانے سے جملے کا آہنگ بدلا جاسکتا ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ افسانے میں فکشن کا جملہ ہی استعمال ہونا چاہیے ۔ شاعرانہ وسائل کا کثرت سے استعمال بیانیہ کم زور کر دیا کرتاہے ۔ شاعروں کی دیکھا دیکھی اچھی نثر لکھنے والے بھی آرائشی زبان لکھنے لگتے ہیں۔ تخلیقی زبان وضع کرنا اور آرائشی زبان کا اہتمام دونوں‘ مختلف وظیفے ہیں ۔ آرائشی زبان شاعری کے لیے مفید بنائی جاسکتی ہے ‘ مقررین ‘ سیاست دان اور خطیب حضرات بھی اس سے اپنے اپنے سامعین کومرعوب کر سکتے ہیں مگر افسانہ نگار کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسی زبان کا اسیر ہو جائے ۔ ان کی زبان کو افسانے کے تخلیقی بہاﺅ کے زیر اثر ہی رہنا چاہئے۔ یہ راز بھی افشا کیے دے رہا ہوں کہ افسانے کی زبان میں بہت کچھ لکھی گئی سطروں کے بیچ میں کہا جاتا ہے۔
بیانیہ کے بھید
آرائشی زبان بیانیہ کو مدہم کر دیتی ہے ۔ بعض اوقات ایسی زبان کی وجہ سے کہانی آگے بڑھنے سے انکار کر دیتی ہے۔ افسانے کی زبان کو کہنا کم اور سجھانازیادہ ہوتا ہے ۔ یہ بتاتی کم اور تصویریں زیادہ بناتی ہے۔ ان تصویروں کو بنانے کے لیے خیال کا عکس بنایا جاتا ہے اور ایک عکس کو کسی دوسرے عکس سے مماثل قرار دے کر تصویر کے رنگ گہرے کر لیے جاتے ہیں ۔ یاد رہے متن کے اندر اس طرح کے قرینے متن میں معنی کی رفتار بڑھا دیا کرتے ہیں ۔ کسی ایک صورت حال کاکسی دوسری صورت حال کے ذریعے انعکاس اور انعطاف ایک متن میں ایک جست کی طرح آتا ہے ۔ تاہم واقعے یا کہانی کو علامت یا تصویر بنائے بغیر بیانیے میں علامتوں اور بنی بنائی تصویروں کے ٹکڑے لگانے سے رفتار میں رخنے پڑ جاتے ہیں ۔ یاد رہے فکشن کے بیانیے کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں کردار اور تخیل ہم آہنگ ہو جایا کرتے ہیں۔ محسوسات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ متن کی رفتار بھی انہی وسائل سے متعین کی جاسکتی ہے۔افسانے میں کہانی سامنے کی طرف یا پھر الٹے قدموں چلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ۔ وہ کہانیاں جو پیچھے کو زیادہ چلیں اور آگے کی سمت جست کم لگائیں ان کا بیانیہ بہت مدہم رہتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ افسانے جن میں ماضی سے قوت پاکر مستقبل میں جست لگانے کا قرینہ ملتا ہے ان کا بیانیہ بھی تیز ہو جایا کرتا ہے۔جن دیگر وسائل کو بروئے کار لاکر افسانے میں بیانیہ کی رفتار کو مدہم یا تیز کیا جاتا ہے ان میں سے چند ایک یوں ہو سکتے ہیں:
جملے کی ساخت :

طویل جملہ لکھنے سے بیانیہ مدہم پڑجاتا ہے ۔ چست اور چھوٹے چھوٹے جملے متن میں معنی کی رفتار بڑھادیتے ہیں۔
وضاحتیں:

وضاحتوں سے متن کی رفتار مدہم پڑ جاتی ہے ۔ زیادہ وضاحتوں سے کہانی رک بھی جایاکرتی ہے۔
جزیات اورتفصیلات:

جزیات کہانی میں گہرائی کی سمت تحرک پیدا کرتی ہیں جب کہ تفصیلات کہانی کی رفتار میں رخنے ڈالتی ہیں۔
مکالمے:

ضروری مکالمے کہانی کی رفتار کو تیز تر کر سکتے ہیں۔ تاہم غیر ضروری مکالمے کہانی کے بہاﺅ کو روک دیتے ہیں۔
واقعات :

واقعہ زیادہ دورانیے کا ہوگا تومتن کی رفتار مدہم پڑ جائے گی اور اگر واقعات تیزی سے اگلے واقعے کے منتظر پیالے میں اپنا معنیاتی دھارا گراتے چلے جائیں گے تو متنی رفتار تیز ہو جائے گی۔
پیرا گراف :

لمبے لمبے پیرا گراف متن کی رفتار میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور قاری کی دل چسپی کو کم کرتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے پیرا گراف سے اور افسانے میں اگر زمانی عرصہ طویل ہو تو متن کے حصے بنالینے سے ‘ متن کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔
اصرار اور تکرار:

کسی بات کی تکرار اور اس پر زور دینے سے متن رک کر معنی کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
اسی طرح فلیش بیک‘ جذبات نگاری ‘ ریشمیں لفظوں کا استعمال اورمناظر کی زیادہ مقدار بھی بیانیے کے بہاﺅ کو مدہم کر دیا کرتی ہے۔ ایک افسانہ نگار کو یہ سارے پہلو اور وہ ساری باتیں جو میرے بیان میںنہیں آئیں مگرکہانی کی رفتار متعین کرتی ہیں سیکھنا ہوں گی۔
فوری نظر میں آجانے والے اجزا
لیجئے ‘اب یوں کرتے ہیں کہ اپنی ساری توجہ افسانے کے فوری طور پر نظر میں آجانے والے اجزاءپر مرکوز کر دیتے ہیں۔ یہ اجزاءعام طور پر کردار‘پلاٹ‘زمان و مکان‘مرکزی خیال اور اسلوب کے طور پر شاخت کیے جاتے ہیں ۔ ناقدین نے ان کی کارکردگی کی وضاحت کے لیے یہ حیلہ بھی کیاہے :
کردار =
کون
پلاٹ=
کس طرح
زمان اور مکان=
کہاں اور کب
مرکزی خیال=
کیا
اسلوب =
کیسے
ایک حد تک ’کسی بھی افسانے میں ان اجزاءکی کارکردگی‘ اوپر متعین ہوچکی ہے ۔ کون‘کس طرح کہاں اور کب کیا کر رہا ہے اور کیسے/ کس دھج سے کر رہا ہے ۔ دیکھئے کتنی سہولت سے اس کی وضاحت بھی ہوگئی۔ میں آپ کے چہروں پراطمینان کی لہریںدیکھ کر جان گیا ہوں کہ آپ معاملہ کے اتنے سہل ہونے پر بہت خوش ہیں لیکن پیارے نوجوان افسانہ نگارو معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے ۔ لہذا ہمیں ایک ایک کو ذرا تفصیل بیان کرنا ہوگا۔
کردار اور راوی
کسی بھی قصے ‘ کہانی ‘ ڈرامے‘ناول یا افسانے میں کردار سے مراد وہ متنی شخص یا شخصیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے سارے تنازع کے تناظر میں تحرک قائم ہوتا ہے ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ افسانہ میں کردار کو اپنی شناخت بنانے اور کارکردگی دکھانے کے لیے بہت محدود علاقہ میسر ہوتا ہے لہذا افسانے کا کرداران سب اصناف کے کرداروں سے مختلف ہوجاتا ہے جن میں کردار کو دکھایا جاسکتا ہے یا اسے قائم کرنے اور اس کو حرکت دینے کے لیے زیادہ تفصیلات کو کھپایا جاسکتا ہے۔
اپنی سہولت کے لیے ہم کرداروں کی شناخت متعین کرنے لیے مختلف نوعیت کے افسانوں کو الگ الگ دیکھ لیتے ہیں مثلاً کچھ افسانے ایسے ہوتے ہیں جن مےںکوئی نہ کوئی ایسا موجود ہوتا ہے جو ماجرا کہہ رہا ہوتا ہے ۔ جب آپ توجہ سے دیکھیں گے توآپ پر کھلے گاکہ وہ جو کہانی بیان کر رہا ہے وہ خود بھی اس کہانی کا حصہ ہے ۔ ایسے افسانے صیغہ واحد متکلم میں لکھے جاتے ہیں ۔ راوی کردار چوں کہ ”میں“ کہہ کر ساری کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے لہذا بسا اوقات اسے افسانہ نگار کی اپنی ذات سمجھ لیا جاتا ہے ۔یہ نادرست رویہ ہوگا۔ خود افسانہ لکھنے والوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خود نوشت کا ”میں“ اور افسانے کا”میں“ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں ۔ افسانے کے ”میں “ کو متنی کائنات کے اندر قائم ہوکر محض مصنف کی ذات تک محدود ہونے کی بہ جائے اپنے جیسے افراد کی علامت بن جانا ہوتا ہے۔
ایسا افسانہ لکھتے ہوئے کہ جس میں راوی کردار موجود ہو بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔ ذرا سی بے احتیاطی کہانی کے کردار کو محدود کرکے ناقص بنا سکتی ہے ۔ ایسے کرداروں کی تخلیق میں جہاں یہ سہولت موجود ہے کہ یہ کردار اپنی باطنی کیفیات بیان کر سکتا ہے اسے اس رخنے سے واسطہ بھی پڑتا ہے کہ وہ دوسرے کرداروں کے باطن میں نہیں جھانک سکتا۔ پھر اس کردار کا جو بھی مزاج متعین کیا جائے گا پورے افسانے اور اس کے ماحول کا رنگ ڈھنگ بھی اسی کے نقطہ نظر سے قائم کرنا ہوگا۔
کچھ افسانوں میں راوی اور کردار الگ الگ اپنا منصب ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ ایسے افسانوں کو غور سے دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ماجرا کہنے والا موجود تو ہے مگر وہ کہانی میں کہیں بھی خود داخل نہیں ہوا۔ میں ایسے راوی کو کرداروں سے الگ سمجھتا ہوں ۔ یہ راوی بعض اوقات واحد متکلم کے صیغے میں اپنی شناخت کہانی سے باہر قائم کرلیتا ہے اور ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ راوی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر ساری کہانی کو غیر محسوس انداز میں بیان کردیتا ہے۔
میں کردار کی بحث میں راوی کو لے آیا ہوں مگر مجھے اندازہ ہونے لگا ہے کہ اس طرح بات دوسری سمت جا نکلے گی لہذا مناسب یہی ہوگا کہ اسے یہیں روک کر‘ کردار تک اپنے آپ کو محدود رکھیں۔
ایساکردار جو کہانی کے متن کے مرکز میں قائم ہوتا ہے اسے مرکزی کردار کہاجاسکتا ہے ۔ کہانی میں تحرک اس کردار کے وسیلے سے قائم ہوتا ہے اورپورے افسانے کا مزاج بھی یہی کردار متعین کرتا ہے ۔ تاہم ضروری نہیں ہے کہ وہ کردار جو کہانی کے متن میں ہر کہیں موجود ہوکر مرکزی ہوجائے وہی ا فسانے کے مرکزی خیال/نقطہ نظر یا پھر بنیادی تنازع کامظہر اور نمائندہ بھی ہو۔ دوسری قسم کا کردار افسانے کے اندر محض چند لمحوں کے لیے آکر تناظر قائم کرسکتا ہے۔ میں ایسے کردار کو سہولت کے لیے تناظری کردار کہہ دیتا ہوں ۔ کچھ کردار ضمنی یا پھر ثانوی حیثیت رکھتے ہیں تاہم ایسے کرداروں کی افسانے میں بہت کم جگہ ہوتی ہے اور وہ اسی حد تک جھلک دکھا پاتے ہیں جتنا کہ ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض افسانوںمیں افراد یا کسی زندہ مخلوق کی بجائے کردار کا منصب اشیا یا پھر احساس کی ایک سطح کوادا کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی ایک کہانی بیان ہو رہی ہے جس میں کوئی آدم ہے نہ آدم زاد ‘ حتی کہ وہ جنگل بھی نہیں ہے کہ کوئی درندہ آکر کردار کے منصب کو سنبھال لے ‘ایک اجاڑ منظر ہے اور یہی اجاڑ پن کہانی کے اندر بیانیے کے ساتھ جڑ کر کردار بن گیا ہے ۔ ایک کائناتی منظر کا تصور کیجئے جہاں بادل ہیں اور بادلوں کے اوپر سب کچھ تیر رہا ہے وہاں طبعی زندگی کا تصور موجود نہیں ہے مگر وہاں تخیل کہانی کو لے گیا ہے اور مابعد کا ایسا منظر بنادیا ہے جس میں کہانی اورکردار وہیں کے مظاہر ادا کرنے لگتے ہیں ۔
ایسے افسانے بھی دیکھے گئے ہیں جن میں کردار کا چہرہ تو غائب ہو تاہے مگر اس کا وجود سارے قضیے کو قائم کر رہا ہوتا ہے ۔ جی میری مراد کسی سر کٹے کردار سے نہیں بل کہ ایسے کردار سے ہے جس کا افسانے میں کوئی نام نہیں ہوتا مگر اس کی شخصیت پوری طرح قائم ہوجاتی ہے ۔ تو یوں ہے کہ افسانے کی کائنات کرداروں سے اٹی پڑی ہے۔ ہر کردار کا منصب جدا ہے لہذا لکھنے والے سے ہر کردار کا مطالبہ بھی الگ ہوتا ہے ۔
پلاٹ
یاد رہے کہ میں نے کردار کے سامنے ”کون “ لکھا تھا۔ اگرآپ اس ”کون “کو جان گئے ہیں تو جس طرح کہانی کے اندر یہ افسانے کے بنیادی تنازع کے ساتھ جڑتا ہے اسے ” پلاٹ“ کہتے ہیں ۔ یہیں یہ بھی یاد دلا دوں کہ میں نے ”پلاٹ “کے سامنے” کس طرح“ لکھوایا تھا۔ پلاٹ کو دوسرے لفظوں میں کہانی کی ترکیب اور تناسب بھی کہا جاسکتا ہے ۔ پلاٹ کو کہانی کے اندر مختلف واقعات کی ترتیب اور ترکیب سے ہی آنکا جاسکتا ہے۔ اسی سے کہانی کی ایک جہت متعین ہوتی ہے۔ افسانہ نگار کہانی کو زمانی اعتبار سے قائم نہیں کرتا بل کہ اسے اپنے پلاٹ کے تابع کرتا اور کرداروں کو اس پلاٹ میں متحرک رکھ کر تناﺅ اور اتار چڑھاﺅ کی کیفیات بناتا ہے ۔ یہ پلاٹ ہی ہوتا جس کے ذریعے مصنف یہ طے کرتا ہے کہ اسے کہانی کے قضیے کا تناﺅ اس کے آغاز میں بیان کردینا ہے یا وسط میں ۔ اور پھر اس تناﺅ کو کہاں معمول پر لاکر اس میں بنیادی قضیے کی معنیات کو قائم کرنا ہے ۔
روایتی کہانی میں پلاٹ کی بہت اہمیت تھی مگر افسانہ چوں کہ پوری زندگی کے بیان کی بجائے زندگی کی ایک قاش ہوتا ہے لہذا اس کے اندر سے کسی ٹھوس پلاٹ کا تصور معدوم ہوتا چلا گیا ۔ حتّٰی کہ بعض ایسے بھی افسانے لکھے گئے ہیں‘ جن کے بارے میں دعوا ملتا ہے کہ ان میں پلاٹ سرے سے غائب ہے ۔ اس دعوا کو مان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ پلاٹ نہ سہی پلاٹ کے ایک احساس کی زمین بہ ہر حال ہر افسانے میں موجود ہوتی ہے جس پر ہر کہانی اپنے دھج سے چلتی آگے بڑھتی ہے۔
بعض افسانے اپنے متن کی بالائی سطح سے ایک صورت حال کو بیان کر رہے ہوتے ہیں اور ڈیپ اسٹریکچر یعنی باطنی ساخت میں اس سے بڑی /گھمبیر صورت حال بیان ہورہی ہوتی ہے ۔ یوں کہانی کا خارج اس کی باطنی کہانی کے لیے علامتی منصب سنبھال لیتا ہے۔ ایسی کہانیوں کے لیے پلاٹ /پلاٹ کے زیر اثر قائم احساس کی بھی ایک سے زیادہ جہتیں ہوں گی۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے افسانوں میں باطنی کہانی کے لیے خارجی کہانی سے کہیں زیادہ مضبوط پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ افسانے کے آخرحصے میں اشیا بالعموم اپنی تاثیر بدل لیتی ہےں اور احساس میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ پلاٹ ہی ہے جس کے ذریعہ مصنف اس باب میں حکمت عملی طے کرتا ہے۔ ایک بہتر حکمت عملی قوت تاثیر میں اضافہ کا موجب بنتی ہے اور اس میں خامی رہ جائے تو افسانے کی کہانی وقت سے پہلے ہی کھل کر پھس پھسی ہوجاتی ہے۔
پلاٹ افسانے کے پس منظر اور ماجرے کے اندر ایک تناظر بناتا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں: پلاٹ کہانی کا اسٹریکچر بناتا ہے اور طے کرتا ہے کہ کہانی کو کس ترتیب سے چلنا اور کرداروں کو اس کہانی میں کس حد تک جانا ہے۔ تاہم میں کہہ آیا ہوں کہ کہانی کے کرداروں میں اب تک اتناحوصلہ پیدا ہو چکا ہے کہ وہ اس کے جبر کو توڑ کر باہر نکلتے رہیں ۔ یوں بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ کہانی اور اس کے کردار کس حد تک ایک روایتی پلاٹ کے باہر جست لگا سکتے ہیں یہ بھی ایک لحاظ سے افسانے کے پلاٹ کی” ضمنی“ میں لکھ لیا جاتا ہے۔
زمان اور مکان
زمان اور مکان کا قصہ دل چسپ بھی ہے اور اہم بھی ۔ افسانے کی کہانی کسی نہ کسی زمانے کے اندر ظاہر ہوتی ہے اور اس ظہور کے لیے اسے کسی نہ کسی مکان میں موجود بھی ہونا چاہیے۔ کسی بھی کہانی میں زمان و مکان کا یہی جواز کافی ہے ۔ تاہم یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ وقت یعنی زمان ہمیشہ سے مکان کے ساتھ پیوست رہا ہے۔ آدمی نے اپنے تجربے سے اسے قائم کیا اور اس کی تعبیر کی ہے۔ جان لینا چاہیے کہ وقت و زمان کی یہ کلینڈری اور تقویمی تقسیم ایک سماجی وظیفے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ وقت کو جن پیمانوں سے یہاں ماپا گیا ہے وہ ہماری باطنی کیفیات کے مقابل آتے مات کھا جاتے ۔ افسانے کا معاملہ اس سیکھے ہوئے اور اپنی دانست کے مطابق گھڑے ہوئے وقت سے بھی ہے‘ جس میں سیکنڈ‘منٹ ‘گھنٹہ آگے چل کر دن‘ مہینے اور سال کے قالب میں ڈھلتا ہے اور اس وقت سے بھی جس میں سدھائے ہوئے اس وقت میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہتی ہے ۔ کیوں کہ افسانے میں بہ ہر حال وقت کو انسان کے باطنی مزاج سے ہم آہنگ ہونا ہوتا ہے۔
جس طرح صدمے ‘خوشی‘ انتظار جیسی کیفیات میں باطنی وقت کی ساعتیں سمٹ یا پھیل جاتی ہیں اسی طرح ماضی حال اور مستقبل کی ترتیب میں واقع ہونے والی کہانی افسانے کی زمانی ترتیب سے منحرف ہوجایاکرتی ہے ۔
میں پہلے ہی کہہ آیا ہوں کہ زمان اور مکان باہم پیوست ہوتے ہیں اور یہاں یہ اضافہ کرنا ہے کہ زمان جس مکان کے ساتھ جڑتا ہے اسی کی دھج سے چلتا ہے۔ کہیں وقت ٹھہر کر جم جاتا ہے اور کہیں قلانچیں بھرنے لگتا ہے ۔ کہیں گاڑھاہو کر اپنی رفتار مدہم کر لیتا ہے اور کہیں دھچکے لگا کر اس میں وقفے ڈالتا چلا جاتا ہے ۔ ان ساری صورتوں میں آپ دیکھیں گے کہ کہانی کا مزاج بالکل بدل گیا ہے ۔ کہانی کا بدلا ہوا مزاج ہی تاثیر کی قوت پیدا کرتا ہے اور اس معنویت کو بھی اجالتا ہے جو کہانی کے مرکزی تصور سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ۔
مرکزی خیال کے باب میں ایک وضاحت
کیا مجھے ایک بار پھر بتانا ہوگا کہ ہم ”مرکزی خیال “ کو افسانے کے اجزائے تراکیبی میں شمار کر چکے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اس کے سامنے ” کیا“ بھی لکھ چکے ہیں ۔ یہاں آپ کی توجہ اس بنیادی قضیے کی فکری/ حسی جہت کی جانب چاہیے جو کہ کہانی میں اٹھایا گیا ہوتا ہے ۔ جب جب میں افسانے میں نقطہ نظر کے قیام کی بات کر رہا ہوتا ہوں تو اس کا مطلب قطعا ًیہ نہیں ہوتا کہ یہاں مصنف کے نقطہ نظر کی بات ہو رہی ہے ۔ اس سے مراد بیج کی طرح موجود وہ خیال ہے جس سے افسانہ پھوٹتا ہے یا پھر احساس کاوہ ہالہ جو افسانے کے گرد موجود ہوتا ہے ۔
اسلوب
اب رہ گئی بات اسلوب کی ۔ اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو چوکنا کردوں کہ اس باب میں ہمارے ہاں بہت گمراہی پھیلائی جاتی رہی ہے ۔ اسے محض ایک خاص طرح کا جملہ بنانے اورمحدود ذخیرہ الفاظ کے ذریعے ایک تاثر پیدا کرنے یا پھر شعری وسائل کے کثرت استعمال تک محدود کر لیا گیا ہے۔ بجا کہ لکھنے کا ڈھنگ ‘ واقعے کی رفتار ‘ جملے کی ساخت ‘ الفاظ کا چناﺅ ‘ سوچنے سمجھنے کا انداز ‘ یہ سب اور وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہمارے مزاج میں اتری ہوئی ہوتی ہیں کسی بھی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہیں‘ تاہم یہ جان لینا چاہیے کہ اسلوب بنیادی طور پر ہرتخلیق کار کے اپنے اسلوب حیات سے پھوٹتا ہے ۔ اسلوب اسی تخلیق کار کے ہاں بنتا ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی اورمتنوع علوم سے معاملہ کرے یا روزمرہ کے عمومی وظیفے کے مقابل ہوتو اس کے فکری اور حسی فیصلوں کی ایک جہت بنے ۔ بات بات پر قبلہ بدلنے والے ‘ فکری گہرائی سے نابلد اور مزاج کے اتھلے یا فیشن زدہ فن کاروں کے ہاں اسلوب نہیں بنا کرتا ۔ تاہم مسلسل مشق اور مشقت سے اس کا التباس ضرورپیدا کیا جاسکتا ہے ۔
آخر میں ‘ایک بار پھر
میں نے جوکچھ کہا وہ سب‘ اس لحاظ سے اہم سہی کہ جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس کی مبادیات کی خبر ہونی چاہیے ( تاہم میں جو باتیں کر آیا ہوں ‘ انہیں ہمارے ہاں یوں سمجھنے کا چلن نہ سہی مگریہ غیر معمولی باتیں نہیں ہیں۔ اگر آپ کو موقع ملے تو اپنے پسندیدہ افسانوں کو بار بار پڑھیں ‘اس طرح کے کئی اور بھید خود بخود آپ پر ظاہر ہوتے چلے جائیں گے)۔ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں اور یہاں ایک بار پھردہرانا چاہتا ہوں کہ جب آپ افسانہ لکھنے بیٹھیں توایسے اجزاءکی فہرست بنا کر اور ان کی بابت چوکنے ہو کر مت بیٹھیں۔ دیکھیں سانس لینا ہم سب کے لیے بہت اہم سہی مگر یہ کب ہوتا ہے کہ ہر سانس کے ساتھ اس کا تخمینہ بھی لگارہے ہوں کہ کتنی مقدار میں آکسیجن پھیپھڑوں میں پہنچ رہی ہے۔ تخلیقی لپک کو آزادی سے کام کرنے دیں اور اس کی راہ میں رخنے مت ڈالیں ۔ اگر آپ سب کچھ بھول کراس خاص افسانے کے تخلیقی آہنگ سے جڑ نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو آپ لکھنے جارہے ہیں تویقین رکھیں کہ افسانہ لکھنے کا قرینہ خود بخود آپ کے لہو کا حصہ ہو کر آپ کی رگوں میں دوڑنے لگے گا ۔
(بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ‘اسلام آباد کی دعوی اکیڈمی کے زیر اہتمام نوجوان قلم کاروں کی ورکشاپ‘منعقدہ ۶۱ دسمبر‘2008 میںکی گئی گفت گو ۔)

٭٭٭

خطبہ صدارت:حلقہ ارباب ذوق کھوڑ

خطبہ صدارت:محمد حمید شاہد
حلقہ ارباب ذوق
برائے سالانہ اجلاس۔ کھوڑ
معزز خواتین و حضرات سب سے پہلے مجھے حلقہ ارباب ذوق ‘ کھوڑ کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے مجھے آج آپ کے سامنے حاضر ہونے اور کچھ کہنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے ان کی استقامت پر داد بھی دینا ہے کہ میرے مسلسل انکار پر ان کااصرار بڑھتا رہا حتی کہ بیچ میں کئی ماہ گزر گئے یہ تقریب آگے ہی آگے سرکائی جاتی رہی۔ اس عرصے میں مجھے یقین ہو چلا تھا کہ حلقہ والے کسی ایسے صاحب کمال اور خطبے کے رسیاشخص کو ضرور ڈھونڈھ نکالیں گے‘ جو جھٹ پٹ صدارتی خطبہ لکھنے اور ارشاد فرما دینے پر قادر ہوگا اور یوں میں صاف بچ نکلوں گا۔ مگر میرایقین مات کھا گیا‘ ان کی استقامت جیت گئی اور مجھے ہاں کہہ دینا پڑی۔میرے کترانے اور کنی کاٹ کر گزر جانے کی کوششوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں یہ سبب بھی موجود رہا ہے کہ ادب میں ‘ میںکسی بھی خطیبانہ کردار کو غیر تخلیقی عمل سمجھتا رہا ہوں۔ اب اگر آپ کو میری آج کی باتیں خطبہ کم اور مکالمہ زیادہ لگیں تو مجھے معاف کیجئے گا کہ مجھے یہی روش مناسب لگتی ہے۔ جب میں اپنی روش پر نکل کھڑا ہونے کو جائز قرار دے چکا ہوں تو آپ سے بھی امید رکھوں گا کہ جہاں جہاں آپ کو میری بات میں ٹیڑھ نظر آئے ‘ مجھے ترت ٹوک دیں گے کہ میرا نقطہ نظرآج کا صدارتی خطبہ ہوتے ہوئے بھی کسی آمر کا فرمان نہیں ہے۔خواتین و حضراتیوں ہی بے دھیانی میں آمر کا لفظ آگیا ہے تو کہتا چلوں کہ آمریت ہمیشہ دہشت کو ساتھ لے کر آتی ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ موجودہ عہد کو دانش وروں نے دہشت کا زمانہ کہا ہے۔ یہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں انسانی زندگی بے توقیر ہو گئی ہے۔ قوت اور پیدواری منابع پر قبضے کا چلن عام ہو چلا ہے۔ ملکوں پر یا تو براہ راست حملہ کر دیا جاتا ہے یا پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے عالمی سامراج ایسے ہی آمروں کو اپنا ہرکارہ بنا لیتا ہے۔ جنہیں دروازے پر پہرا دینا تھا جب وہی سامراج وفادار اور موئید ہوجائیں تو ایسے سانحات کو ہونے سے کون روک سکتا ہے جو ہمارے آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ عالمی اور داخلی سامراج کے گٹھ جوڑ سے متشکل ہونے والے دہشت کے اس زمانے نے ہماری حسیات کوبالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم خوف‘ نفرت‘ غصہ اور مایوسی کو الگ الگ محسوس کرنے اور بیان کر دینے پر قادر تھے اب یوں لگتا ہے ایسا ممکن نہیں رہا ہے۔ خوف کب نفرت میں ڈھلتا ہے اور نفرت کب غصے کے بعد مایوسی میں ‘ ہم چاہیں بھی کو ڈھنگ سے جان ہی نہیں پاتے۔ مسلسل ہراس نے آدمی سے اس کے حواس چھین لیے ہیں۔جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اسے محض حواس باختگی کا زمانہ ہی نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں زندگی کے لطف اور اس کے اندر موجود تخلیقیت کو لذت اور افادیت سے بدل لیا گیا ہے۔ جی صاف لفظوں میں کہوں تو یوں ہے کہ تخلیقی عمل جو انسانی زندگی کو ایک خاص لطف سے ہمکنار کرتا تھا وہ آج کے عہد کی بظاہر ترجیحات میں کہیں نہیں ہے۔ میڈیا کی مقبولت اور پھیلاو نے جس نمائشی اور لذیذ زندگی کومابعد جدیدیت والے جدید تر آدمی کے لیے نمونہ بنا دیا ہے اس نے تہذیبی اور اقداری نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔یہ جو میں نے ایک ہی سانس میں تہذیبی اور اقداری نظام کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی طرف اشارے کر دیئے ہیں تو یہ بات اتنی سہولت سے کہہ دینے اور سمجھ لینے والی نہیں ہے کہ یہ تو1857 کی جنگ آزادی یا عظیم غدر کے ڈیڑھ سو سال کے بعد کا قصہ ہے جس میں زمانے نے کئی کروٹیں لے لی ہیں۔ میں اردو ادب کے باب میں ان ساری تبدیلیوں کی بات کر رہا ہوں جو سہج سہج اس میں آئیں اورانتہائی غیر محسوس طریقے سے اس عہد میں اس کا حصہ ہو گئیں جب ”خلقت خدا کی ‘ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘ ‘ کہہ کر قصہ سنایا جاتا تھا۔ یہ لگ بھگ ولیم فریزر کے مشہور زمانہ قتل کا زمانہ تھا‘جسے اب جاکے شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول کا موضوع بنا ڈالا ہے۔ ولیم فریزر کے قتل کا ذکر آیا تو اس جرم میں نواب شمس الدین کو پھنسانے کے جتن کرنے والے غالب کی طرف دھیان چلا گیا ہے جو غزل کو بالکل نئے ڈھنگ کا بناکر اس میں مزید اور فوری تبدیلیوں کی راہیں مسدود کررہا تھا۔ بعد کا وہ زمانہ جس میں خدا کی خلقت اور ملک براہ راست انگریز کے مکمل قبضہ قدرت میں چلا گیا تو ہم اس قابل ہوگئے تھے کہ ایک ساتھ اس سے نفرت بھی کریں ‘ اسے چاہیں اور سراہیں بھی۔ نفرت کا زہر تو ہمارے لوک قصوں میں اندر تک سرایت کر گیا مگر ہماری دانش کے نگہبان اس پر سر دھن رہے تھے کہ انگریز کیسی لگن سے ہمارے کلاسیکی سرمائے کو بہم کر رہا تھا ‘اس کے تراجم کا اہتمام کرکے اسے محفوظ کر رہا تھا۔ اس نیک کام کے پیچھے چھپے استعمار کے عزائم نہ اس وقت ہمیں سمجھ آتے تھے نہ اب سمجھ آتے ہیں۔ اس نا سمجھی اور کم فہمی میں ہم نے دہشت کے اس زمانے تک آتے آتے اپنے تہذیبی وجود کو پچکا کرناکارہ بنا ڈالا ہے۔میں جس تہذیبی وجود کا قصہ لے کر بیٹھ گیا ہوں اس کو بھلا کر میں تخلیقی عمل کے ساتھ جڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مانتا ہوں کہ یہ تہذیبی وجود ‘جو مجھے بہت محبوب ہے‘ بظاہر ہر کہیں اس اکتسابی شعور سے مات کھارہا ہے جسے دھونس دھاندلی اور زور زبردستی سے ہمارے تخلیقی وجود کہ حصہ بنانے کے جتن ہوتے رہے ہیں۔ تاہم میں یہ ماننے سے انکاری ہوں کہ اکتسابی شعور تہذیبی وجود سے مس ہوئے بغیر تخلیقی شعور میں منقلب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ تخلیقی عمل کے اس بھید سے آگاہ نہیں ہیں اور اپنے تہذیبی وجود کو تخلیقی واردات کے دوانیے میں حاضر رکھنے کے بھید سے آگاہ نہیں ہیں ان کے لیے تخلیقی عمل محض اور صرف ایک نئے متن کی تشکیل ہو گیا ہے۔ پرانے متون کی اکھاڑ پچھاڑ سے ظاہر ہونے والا ایسا متن جس میں معانی معطل ہوتے رہتے ہیں۔اس باب میں ہمارا تخلیقی تجربہ مختلف رہا ہے۔ .... کیسے ؟ اسے جاننے کے لیے مجھے کہہ دیناچاہیے کہ جن مغربی افکار کو ہم مشرقیت کا جزو بنانے پر تلے بیٹھے ہیں وہ کبھی بھی ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ حتی کہ ان میں اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ یہ افکار ہماری کسی داخلی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ ہمارا داخل کائنات کی اس تعبیر کو مانتا ہی نہیں ہے جس کے اندر سے سارے بھید نکال کر باہر پھینک دیئے جائیں۔ ہمارے لیے تو سارا حسن مسافت اور تجسس میں ہے پرکھ کر کسی نتیجے پر پہنچ جانے میں نہیں۔ تسلیم کر لینے اور ایک بھید کو اپنی وسعتوں سمیت اپنے وجود کا حصہ بنا لینے میں جو لطف ہے وہ تجربہ گاہ میں لے جا کر کسی عظیم بھید کے بخیے ادھیڑ ڈالنے میں کہاں جس کے بعد کچھ ہاتھ نہیں آتا اور جھنجھنا نا آدمی کا مقدر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں زندگی محض وہ نہیں ہوتی جو ہمارے تجربے میں آتی ہے کہ وہ تو صرف ہستی کا فریب ہوتا ہے۔ زندگی تووہ بھی ہوتی ہے جو دیوار کے ادھر رہ جاتی ہے مگر جسے ہم تسلیم و رضا کے قرینے سے اپنے وجود کا بھید بنا لیتے ہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا :
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدعالم تمام حلقہ دام خیا ل ہےاور یہ جو دام خیال والا عالم تمام ہے غالب کے یہی تمام عالم نہیں ہے کہ اس دشت امکاں کو تو وہ صرف ایک نقش پا سمجھتا ہے اور اپنی تمنا کا دوسرا قدم اسی بھید بھرے علاقے میں جادھرتا ہے جس کا علم اکتسابی نہیں بلکہ تہذیبی ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ شروع سے ہمارے ہاں کامل سطح پر تہذیبی شعور کبھی بھی کام نہیں کرتا رہا ہے اور یہ بھی مانتا ہوں کہ ابھی ہم پوری طرح اس جانب متوجہ بھی نہ ہو پائے تھے کہ ہماری تہذیبی زندگی میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی تھی۔ یہاں آپ کو مطالبہ کرنا چاہیئے کہ میں تہذیبی وجود کے حوالے سے جس زمانے کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوتا ہوں مجھے کے منفی رجحانات اور رخنوں کو بھی خاطر نشان رکھنا چاہیئے۔ آپ کا مطالبہ بجا اور یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عین اسی زمانے میں کہ ابھی بقول انتظار حسین ادب کا ناتا فطرت سے نہیں ٹوٹا تھا‘ فطرت سے بھی اور ماورائے فطرت سے بھی ‘ تو اس زمانے کا سیاسی نظام بہت گل سڑ چکا تھا۔ یہ نظام اتنا بوسیدہ اور بے کار ہو گیا تھا کہ اس کی سڑاندھ میںتہذیبی معاشرے کی سانسوں میں رخنے پڑ رہے تھے۔ یہ بھی ماننا ہو گا کہ ثقافتی انجماد نے مرے کو مارے شاہ مدار جیسا کام کر رہا تھا۔سارے میں جب وہ ثقافتی مظاہر ٹھٹک کر ٹھہر گئے جو تہذیبی علاقے میں توسیع اور تحرک کا باعث ہوتے تھے تو پورا معاشرہ ایک گہری تبدیلی کی ضرورت محسوس کرنے لگا تھا۔ اسے حقیقت مانتے ہوئے بھی میرا اصرار ہے کہ انگریز کی غلامی نے ہمیں جس نہج پر بدل کر رکھ دیا ہے اس نے ہمارے ہاں بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ ہماری اس بدلی ہوئی شخصیت کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا مابعدنوآبادیاتی ذہن ہند مسلم تہذیب کے روشن مظاہر کے ساتھ جڑنے کی راہ میں جا بجا رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا ہے۔خواتین و حضراتلطف یہ ہے کہ ان سارے رخنوں کے باوجود ہمارا تہذیبی لا شعور بہت بیدار رہا ہے۔ ہم اوپر سے یوں بدلتے رہے ہیں جیسے کوئی شوقین مزاج اپنے سیل کی سکن بدلتا ہے تاہم ہمارا باطنی ماڈل بہت ہد تک ہمارے تہذیبی وجود کے روشن مظاہر سے جڑا رہا ہے۔ دیکھئے اس باب میں افسانے کی مثال دی جاسکتی ہے جو قصے کہانی اور داستان کے اسلوب سے خارج میں ناتا جوڑے بغیر وجود میں آگیا تھا اور ہمارے ہاں خوب پھلا پھولا ‘ کبھی بیانیے کے روپ میں تو کبھی علامت کے سہارے اور پھر ان دونوں صورتوں کو بہم کرکے نئے تخلیقی جواز کے ساتھ اور وہ بھی یوں کہ اب عالمی افسانے کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ تاہم اس نے اندر ہی اندر ان بھید بھنوروں اور ان مابعد الطبعیاتی موضوعات کو بھی سمو لیا ہے جو مغربی کہانی کی دسترس میں سہولت سے جگہ نہیں پاتے رہے۔ غزل تو شروع سے تہذیبی مظہر تھی اس نے داستان کی طرح پسپائی گوارا نہ کی۔ اپنی ڈھب پر اپنی چھب دکھا کر چلتی رہیا۔ حسی سطح پر تھوڑا سا بدلی مگر یوں نہیں کہ اس کی جست کو صاف صاف ماپا جا سکے اور نئی تبدیل ہو چکی غزل کو میر اورغالب کی غزل کو پھاندکر پیچھے چھوڑ جانے والی غزل کہا جاسکے۔ سو مان لیں کہ یہ اب تک ہمارا تہذیبی مظہر چلی آتی ہے۔ داخلی اور معنیاتی سطح سے لے کرہیئت اور زباں بندی کے حوالے سے بھی۔ نظم کے باب میں ماننا پڑے گا کہ نہ بدلی اور اپنے تبدیل ہونے کا حق ادا کیا اقبال کے بعد راشد تک آتے آتے تو اس کا بدلنا صاف دیکھا جاسکتے۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ اس کے بعد بھی اس کا بھیتر تبدیلیوں کی زد میں رہا ہے۔ یہی معاملہ دوسری اصناف کا ہے مگر ذرا دھیان سے مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہو گا کہ عصری زندگی کے وہ تجربہ جو ہمارے تہذیبی لاشعور کے ساتھ جڑ جاتے ہیں وہی فی الاصل تخلیقی تجربے کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں اور جہاں جہاں اس تخلیقی تجربے کی بجائے اکتسابی تجربے کے زور پر کوئی فن پاری وجود پذیر ہوا ہے اس کی چکا چوند چاہے ایک زمانے میں خوب خوب محسوس کی گئی ہو وقت کی اگلی بارشو ں میں دھل جانے کے بعد ہمیشہ مردود ٹھہرتے رہے ہیں۔خواتین و حضراتیہیں یہ بات یاد دلانے کی ہے کہ تہذیبی تشخص کبھی بھی مکمل اور مطمئن نہیں ہوا کرتا۔ یہ ایسی مستقل عبارت نہیں ہے کہ جسے اپنے گھر کے صدر دروازے کی تختی پرسجا کر اپنی شناخت مستحکم کرلی جائے اور نہ ہی یہ گھر کے پچھواڑے کا ایسا کمرہ ہوتا ہے جس میں کاٹھ کباڑ ڈال دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک تو تہذیبی تشخص ہمہ وقت مضطرب رہتا ہے اور ہمیشہ اپنی تکمیل کے لیے موافق مواد تلاش کرکے اپنے وجود کا حصہ بناتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تہذیبی تشخص کی جلد کے وہ خلیے جو مردہ ہو چکے ہوتے ہیں‘ جھڑ کر مسلسل الگ ہوتے رہتے ہیں۔ یہی تہذیبی تشخص ‘تخلیقی تجربے کا لازمہ ہے۔ وہ ناقدین جو اس بھید بھری کائنات کے مقابل ہوئے بغیر مغربی اصطلاحات کے کلاوے بھر بھرکر اردو کے دامن میں ڈال رہے ہیں میرے لیے بہت اللہ لوک ہیں۔ کئیوں کے نزدیک یہ ادبی خدمت ہوگی مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان میں سے بیشتر اصطلاحات کو اپنے اجتماعی تخلیقی تجربے کے احاطے سے باہر پاتا ہوں۔ یہ بھی ان ناقدین کا المیہ ہے کہ یہ اس بنیادی فکر سے جڑے بغیر ان اصطلاحات کو اردو میں ڈھالنے کا فریضہ سرانجام دینا چاہتے ہیں ‘جو ان کے عقب میں کام کر رہی ہوتی ہے۔ اپنے تہذیبی تجربے کی بات میں کر چکا ہوں اوریہاں مجھے یہ بتانا ہے کہ امریکی سامراج نے اپنی فکری توسیع پسندانہ کوششوں کو تقویت دینے کے لیے جن ادبی تھیوریوں کو ہمارے ادبی نظریات کا حصہ بنانا چاہا ہے وہ ان کے ہاں کسی نہ کسی سطح پر اپنی کارکردگی دکھا کر بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ خود امریکہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ وہاں جب روشن فکری کی تحریک چلی یا بعد ازاںان کی حسیات میں سائنسی اور صنعتی ترقی نے حک و اضافے کیے تھے تو اس نے ان کے وجود کے کئی خلاوں کو پاٹ دیا تھا۔ اس مقام پر مناسب ہوگا کہ ایڈورڈ سعید کے معروف مضمون The Clash of Definitions کا حوالہ دے دوں کہ اس میں اس نے بتایا تھا کہ امریکہ میں یہ بحث کہ کس شے کو امریکی کہا جائے ڈرامائی تبدیلیوں سے دوچار رہی ہے۔ بقول ایڈورڈ سعید جب وہ جوان ہو رہا تھا تو اس زمانے میں ویسٹرن فلم امریکہ کے اصلی باشندوں کو لعین ابلیس کی شکل میں دکھاتی تھی جنہیں یاتو مار ڈالنا لازم تھا یا پھر غلام بنا لینا۔ انہیں ریڈ انڈینز کہا جاتا تھا۔ یہ تھی امریکہ کی اصلی تہذیب۔ لہذا ماضی ان کے لیے ناسور تھا جس کے لیے ایسی ادبی تھیوریوں کو تلاش کیا جانا ضروری خیال کیا گیا جو چاہے فرانس ‘الجیریا یا کہیں وجود میں آئی ہوں ‘ان کی ضرورتوں کو پوری کرتی ہوں اور تہذیبی ماضی کومتن سے کاٹ سکتی ہوں۔ انہیں نہ صرف مستقل معنی بلکہ اس کے مصنف کے وجود سے الگ کرکے پچھاڑ سکتی ہوں۔ وہ تھیوری ہو یا اینٹی تھیوری مگر اس کے ذریعے پرانے زمانے کے بدمعاش ریڈانڈین کو نئے زمانے میں باسٹرڈ اور دہشت گرد ہوکر بھی مہذب کہلایا جا سکے۔ وہ چاہے تو جمہوریت اور آزادی کے نام پر قوت کے منابع اور پیداواری ذرائع پرقابض ہو جائے مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زور پر جسے نجات دہندہ تسلیم کرایا جاسکے۔ یاد رہے سماج‘ جس متن کو میڈیا کے پروپیگنڈے کے زیر اثر حقیقی سمجھے گا‘ وہ نئی تھیوری میں حقیقت ہو گی اس نئی بنائی گئی حقیقت میں تخریبیت ہے‘ بکھراوہے اور اس میں کارکردگی پر زور دیا جاتا ہے۔تو یوں ہے خواتین و حضرات‘کہ دہشت کے اس زمانے میں جب میں اپنے تخلیقی وجود کے ساتھ جڑنے کی بات کر تا ہوں تو دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک سچے تخلیق کار کا باطن بہر حال اپنے تہذیبی وجود کی طرف لپکتا ہے۔ اس تہذیبی وجود کی طرف جو تاریخ‘روایت اور کلاسیکی مظاہر کے ساتھ جڑا ہو اہوتا ہے۔ تہذیبی وجود کے ساتھ یوں جڑنے سے تخلیقی عمل کے دوران زبان اپنا اکہرا معنوی نظام ترک کرکے اندر سے گداز ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے تہذیبی ورثے اور روایت کے اثاثے سے گہرے معنیاتی سلسلے اورتخلیقی بھید بھنورکشید کرکے اسے متن کی جمالیاتی داخلیت کے طور پر نہ صرف قبول کرتی ہے ‘متن کو تخلیق کے منصب جلیلہ پر فائز بھی کرتی ہے۔ اس عمل کے دوران عام زبان تہذیبی علامت کا منصب ادا کرنے لگتی ہے جس میں بنیادی معنیاتی نظام معطل ہونے کی بجائے معنیات‘اظہار اور ابلاغ کے توسیعی علاقے دریافت ہوتے ہیں۔ یہ بالعموم ایسے بھیدوں بھرے علاقے ہوتے ہیں جو الفاظ کی گرفت میں نہیں آتے اور بیان کی قوت سے ورا ہوتے ہیں۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ زبان اس تخلیقی عمل میں ‘رواجی نشانات سے اوپر اٹھ کر حقیقت کے ایک مرتبہ وجود کو اس کے برتر مرتبہ وجود سے جوڑ دیتی ہے۔اب ایک چبھتا ہوا سوال کہ آخر ہم کب تک اوروں کے چبائے ہوئے تنقیدی لقمے چبانے کو ادبی تنقید گردانتے رہیں گے؟۔ کب تک اپنے تخلیقی وجود کی صداقتوں سے الگ رہیں گے؟؟ اور کب تک سادہ متن کاری کی مشقت کو ہی تخلیقی عمل قرار دیتے رہے گے ؟؟؟ ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔ اجازت چاہوں گا تاہم امید رکھتا ہوں کہ میری باتوںسے خوب خوب اختلاف کیا جائے گا کہ اخلاص نیت کے ساتھ اختلاف ہی سے ادبی مکالمے کو آغاز ملتا ہے۔٭٭٭