Monday, August 15, 2011

صدارتی خطبہ :حاشیہ بہ سلسلہ محمد یامین کی نظم ” قصہ خوانی




احباب گرامی : میرے لیے”حاشیہ”کے تحت “نظم کے نئے معمار” کے سلسلے کے اولین اجلاس کی صدارت اگرچہ اعزاز کی بات ہے تاہم یہ واقعی بہت کٹھن رہی اور میں اس پرخوش بھی ہوں کہ تخلیقی عمل کی تفہیم اس سارے عرصے میں، جس طرح فن پارے سے جڑ کربات ہورہی تھی اور جس سنجیدگی سے ہو رہی تھی اس نے مجھے بہت کچھ عطا کیاہے۔ جناب ظفر سید پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اتنا اہم اور سنجیدہ فکر تخلیق کاروں کا تنقیدی فورم مہیا کیا ۔ ایک بار پھر یاد دلا دوں کہ اردو نظم کے عہد حاضر کے نمایاں نام اس فورم کا حصہ ہیں جن سے تخلیقی عمل کو سمجھنے کا نادر موقع میسر ہو رہا ہے۔ میں نے توجہ سے سب کو سنا اور واقعی بہت کچھ سیکھا ۔ تنقید کو بھی تخلیق کاروں اور خود تخلیق سے سیکھنے ، اخذ کرنے اور اس کے فنی جمال اور معیناتی نظم کو سمجھ کر نئے تناظر سے جوڑنے کا چلن سیکھنا چاہیے۔ تنقیدی عمل کا منصب تخلیقی عمل کے احترام ہی سے معتبر ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ بات ان دوستوں کو اچھی نہ لگے جو اس باب میں بہت آگے تک جا چکے ہیں تاہم میں یہ بات انتہائی خلوص سے کہہ رہا ہوں اور درد مندی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ ان کی صلاحیتوں کی اردو ادب کو ضرورت ہے، اسے پڑھیں، اسے پرکھیں اور اگر اس باب میں آپ کا اپنا محبوب تنقیدی راستہ رکاوٹ بن رہا ہو تو اپنا وزن تخلیق کے پلڑے میں ڈالنے سے مت ہچکچائیں۔
فورم کے معزز ممبران ! میں کئی بار کہہ آیا ہوں کہ کسی بھی فن پارے کا تجزیہ کرنے سے کہیں بہتر یہ ہوتا ہے کہ اس کی تفہیم اورتعبیر کی جائے ۔ تجزیہ جزو جزو کرکے فن پارے کو دیکھنے والا عمل ہے اور میں نے اچھے اچھے تجزے دیکھے ہیں جن میں فن پارے کی نامیاتی وحدت سرے سے توجہ ہی نہ پا سکی تاہم تفہیم اور تعبیر کا بنیادی وظیفہ ایک فن پارے کی وحدت کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔ وحدت میں ڈھلنے سے یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ فن پارہ تخلیق کار کے دیے ہوئے معنی کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ۔ جب ہم ادب کی بات کر رہے ہیں تو یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ تخلیق نام ہی اس کا ہے کہ اس کے مرکز میں موجود احساس کی لو، معنیاتی نظام اور جمالیاتی دھارا آنے والے زمانوں میں کتنی نمو پاتا ہے اور کس قدر فزوں ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک بہت اچھے نظم نگار دوست نے جب یہ کہا تھا کہ نظم وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں الفاظ ختم ہوجاتے ہیں تو میں نے نہایت ادب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نظم وہاں سے شروع نہیں ہوتی جہاں الفاظ ختم ہو جاتے ۔ تخلیق کا چلن یہ ہے کہ اس میں کہی جانی والی بات، بیان کیا جانے والا احساس اور معنیاتی نظام لفظوں کی اسی ترتیب کا محتاج رہتا ہے جس میں کسی تخلیق کار نے اسے اپنے تخلیقی عمل کے دوران ترتیب دیا ہوتا ہے ۔ اب اس ترتیب کو توڑ کر آپ جو معنی اخذ کریں گے وہ تخلیق کا بدل نہیں ہو سکتے ہیں آپ کو جو بھی معاملہ کرنا ہے اسی تخلیق سے کرنا ہے۔ اور جب معاملہ تخلیق سے ہو تو تنقید خود مکتفی کیوں کر ہو سکتی ہے۔
خیر، میں محمد یامین کی نظم ” قصہ خوانی ” کی طرف آنا چاہتا ہوں ۔ جناب ستیہ پال آنند، جناب علی محمد فرشی، جناب جاوید انور،جناب رفیق سندیلوی، جناب ناصرعباس نیر، جناب معید رشیدی، جناب ظفرسید، جناب عمران شاہد بھنڈر اور آخر میں جناب محمد یامین نے مکالمہ میں بھرپور حصہ لیا اور اتنا کچھ کہہ دیا ہے کہ میرے لیے شاید اس میں اضافہ ممکن نہیں رہا ۔ تاہم مجھے چوں کہ کچھ نہ کچھ کہنا ہے تویوں ہے کہ میں اس باب میں چند اشارے کرکے رخصت چاہوں گا:
نظم نگار نے بہ جا طور پر اس نظم کو پرازمعنی بنانے کے لیے پشاور کے قصہ خوانی بازار کو چنا ۔ اور اپنے پڑھنے والوں کو اسی سے خاص ہونے والی فضا کے قریب تر کر دینے کے لیے مشک بار افغانی قہوے کے رسیلے گھونٹ میں تلخ باتوں کو گھل مل جانے دیا۔ یہ جو اوپرمیں تلخ ہو کر اس جانب اشارہ کر آیا ہوں کہ آخر شاعرنے دودھ والی کالی چائے کیوں نہ لکھ دیا وغیرہ وغیرہ تو اس کا سبب یہ ہے میں اسے تنقید میں مباح نہیں سمجھتا کہ اپنے نقطہ نظر تک فن پارے کو لے جانے کے لیے چند مرضی کے الفاظ چن لیے جائیں اور ایک فضا جو اس فن پارے میں بن رہی ہے اسے لائق اعتنا نہ جانا جائے۔ اس نظم میں روایتی چائے خانہ یا ٹی ہائوس آ سکتا تھا مگر شاعر اسے نہیں لایا تو اس کا سبب یہ ہے کہ شاعر لفظوں کے تہذیبی معنوں سے جڑنے کو کار فضول نہیں سمجھتا اورجانتا ہے کہ لفظ صرف لغوی معنی اورثقافتی نشان ہی نہیں ہوتا تہذیبی مظہر ہو جانے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ اسی قوت سے معاملہ کرکے نظم نگار نے معنی کی ایک سے زاید سطحوں کو متحرک کر دیا ہے جنہیں ہمارے تخلیق کار دوستوں نے بہ جا طور پر نشان زد کیا ہے۔ قصہ خوانی بازارجہاں قہوہ خانوں اور خشک میوہ جات کے سبب مشہور ہے وہاںیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں دور دراز سے ہو کر تاجر آتے اور جن جن ملکوں اور شہروں سے وہ ہو کر آتے تھے ان کے قصے بھی ساتھ لے آیا کرتے ۔ مگر یہ تب کی بات ہے کہ جب یہ سارا عمل تہذیبی دھارے سے کٹا ہوا نہیں تھا یہی سبب ہے کہ اس کے اندر قصہ خوانی کی روایت لائق احترام تھی۔ تب فرد فرد سے جڑا ہوا تھا اور بازاری کلچر معاشرہ کی سمت متعین نہیں کرتا تھا۔ بازار بھی تہذیبی مظاہر کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا یہی سبب ہے کہ قصہ خوانی کی روایت نے اس بازار کو اپنا نام دیا ۔ اسی روایت نے ایک بازار کو زندگی کی ہمہ ہمی سے جوڑ دیا۔ جی اس شہر کو جس میں ایک یادگاری چوک ہے۔ نظم میںیادگاری چوک آیا ہے لائل پور کا گھنٹہ گھر یا خود یہیں کے درہ خیبر کا حوالہ نہیں آیا تو اس کا بھی ایک سبب ہے ۔ یادگاری چوک کی اپنی ایک روایت ہے اس کا ذکر میں قبل ازیں ایک نوٹ میں کر آیا ہوں ، دہرائوں گا نہیں۔ بس اتنا کہوں گا کہ زندگی کا ایک مظہر وہ میلے بھی تھے جو کبھی یہاں لگا کرتے تھے ۔ تاہم اس وقت کا قصہ خوانی بازار ہو یا یادگاری چوک کی گہماگہمی، اس سب کو نظم نگار نے “ہجوم شوروشر” نہیں کہا ہے۔ وہ ایک تہذیبی زندگی کا نمائندہ بازار تھا جو تخلیق سطح پر فرد کو معاشرے سے جوڑ رہا تھا مگر وقت گزرنے کے بعد نظم بتا رہی ہے کہ اب وہی بازار تہذیب کا قاتل اور ہجوم شور و شر کا محبوب علاقہ ہو گیا ہے۔
ایسے میں تخلیق کار کئی سوالات کے ساتھ سامنے لاتا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ نظم کہیں بھی مایوسی اور ناامیدی کو شعار کرتی ہے۔ اگرچہ سانحہ عظیم ہے۔ اور صورت احوال تلخ ، مگر قصہ گوئوں کے آخری نمائندے کا اس سانحے کے مقابل ہوکرچپ ہو جانا اور ساری تلخی کو مشک بار رسیلے گھونٹ میں گھول کر پی جانے کا عمل اسے اپنی رہی سہی تہذیبی مظاہر کے ساتھ جڑ کر ضبط کرنے اور نئے امکانات پر غور کرنے کی طرف راغب کر رہا ہے۔ یہاں کا ‘چپ’ رہنا ایسا نہیں ہے کہ اسے گویائی سے بھڑا کر اس سے ایسی فلسفیانہ توجیح منسوب کر دی جائے جو نظم کے اندر سے کوئی گہری معنویت پیدا کرنے سے قاصر رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظم کے ابتدائی حصہ کو اس کے اختتامی حصہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بے رنگ اکھڑتی چھال، چاقو سے کندہ نام، وقت کی غفلت، زخم لگانے اور زخم کھانے والے، اس پورے زمانی عرصہ میں ، کہ جو تخلیق کے کلاوے میں ہے، کی کہانی سنائی جا رہی ہے۔ تاہم میں اس نظم سے یہاں بھی مثبت معانی کشید کر رہا ہوں ۔ کہ یہاں شاعر کسی کو فتح یاب قرار دینے کی بہ جائے، ایک سوال اچھال رہا ہے۔ وہ سوال جس کا جواب آنا بہ ہر حال ابھی باقی ہے۔ ۔ سوال یہ ہے کہ شریں گل کی سبز آنکھوں جو خوب ہیں کیا انہیں خاک کا رزق ہونا ہے یا یہ بچ جائیں گے ۔ میں سمجھتا ہوں یہاں شیریں گل کی سبز آنکھوں کا سوال اٹھانے والا بھی خود شریں گل ہی ہے ، قصہ گوئوں کا آخری نمائندہ، ایک تہذیب کی علامت، بید مجنوں کی طرح کھڑاہونے والاافسردہ اور آزدہ شخص ، جو یوں اکیلا ہو گیا ہے کہ اس کے اردگرد سے اس کے اپنے ماضی کی تہذیب کا حصہ ہو کر گم ہو گئے ہیں۔ تاہم مجھے یہاں سے بھی یوں سبز آنکھوں سے امید جھلک دے گّئی ہے کہ انتہائی ناموافق حالات میں اس سوال کا بچ جانا بہ جائے خوداس قصہ گو کے امید سے بندھے ہونے کی علامت بن جاتا ہے۔
اچھا، یہاں تک بات کر چکا ہوں تو کہتا چلوں کہ اس نظم کا ایک وسطی حصہ بھی ہے۔ اگر نظم کا آغاز اور انجام خیال اور احساس کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں تو یہ وسطی حصہ شاعر کو دانش کی روایت سے جوڑ دیتا ہے۔ ایک فن کار کا دانش کی سطح پر درپیش صورت حال کاتجزیہ یہ ہے کہ قصہ گو ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوما، اس نے شہروں اور قوموں کا مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ تاریخ کے نقشے میں جن شہروں کی شہرت گونجتی ہے وہ خموشی کے اسی ازلی رنگ سے ظاہر ہوئے ہیں جن رنگوں سے اس ہجوم شور و شر کو شنا سائی نہیں ہے ۔ آپ کہیں گے میں نے نظم کی لائنوں کو محض نثر بنا دیا ۔ ہاں ، آپ کا کہا بہ جا ، مگر واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس حیلے سے نظم کے متن کے اندر دھڑکتے دل جیسے معنی کو قریب سے محسوس کرنے کی طرف آپ کوراغب کرنا چاہا ہے۔ جہاں قصہ گو ہے ، وہ تاریخ کے نقشے میں اپنا وجود اجالنے والے شہروں کا سا نہیں رہا ہے۔ جی ،یہاں حوالہ بننے والے وہی شہر ہیں، جو اس نے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھے۔ اور جن کے قصے قصہ خوانی میں نسل در نسل سنائے جاتے رہے تھے ، یہ شہر بھی کبھی ان جیسا تھا تاہم اس ہجوم شور شر کے بیچ ایک تخلیق کار کی موجودگی کے ایک معنی تو یہ ہو سکتے ہیں کہ ، وہ جو ساری صورت حال کا خاموشی سے جائزہ لے رہا ہے، وہ بعد ازاں اسی نتیجہ پر پہنچا جہاں میں آپ کو نظم کے پہلے اور آخری حصوں پر بات کرتے ہوئے پہنچا آیا ہوں ۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ شور شرابے کو بڑھ کر بالآخراس مقام پر پہنچ جانا ہے جہاں وہ خاموشی سے مات کھا جائے گا۔ یہ حصہ بھی آخر میں سبز آنکھوں میں سے جھلک دینے والے سوال سے جڑ جاتا ہے۔
نظم کا آہنگ قدرے نامانوس ہے تاہم یہ طے ہو چکا، اس باب میں بہت اچھی باتیں ہوئیں ۔ تیکنیک کو جس طرح جانچا گیا، فنی معاملات کو جس طرح کھنگالا گیا اس سے تنقیدی عمل پر میرا اعتقاد پختہ ہوا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ساری تنقیداور سارے مشورے ایسےنہیں ہوتے کہ انہیں لائق اعتنا نہ جانا جائے۔ ایک فاضل نقاد نے موسیقی کی ایک مغربی اصطلاح کو سامنے رکھا اوراس کے بہائو میں رکھے گئے رخنوں کو نظم میں وقفوں کی صورت دکھایا، تو مجھے اچھا لگا، جب دوسرے فاضل دوست نے یہ کہا کہ اصل چیز تجربے اور جذبے کی صداقت ہے تو اوربھی اچھی لگا۔ جب تخلیقی ابہام کی بات ہوئی ، بندوں کی وحدت کے احترام کے مشورے آئے ، یا یہ نشان زد کیا گیا کہ صوتی اتصال میں راشد سے کیسے گڑبڑ ہو گئی تھی تو سب خلوص اور تخلیق سے کتنا جڑ کر ہورہا تھا ۔ لیجئے صاحب ایک فضا بن گئی جس میں تخلیق پر بات کرنے میں تنقید کو حجاب نہیں آئے گا ۔
یہیں مجھے نظم نگار محمد یامین کو بھی مبارک باد دینی ہے کہ اس کی نظم پر بھر پور گفت گو ہوئی۔ ایسی گفتگو کم کم فن پاروں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔