Sunday, March 1, 2009

خطبہ صدارت:حلقہ ارباب ذوق کھوڑ

خطبہ صدارت:محمد حمید شاہد
حلقہ ارباب ذوق
برائے سالانہ اجلاس۔ کھوڑ
معزز خواتین و حضرات سب سے پہلے مجھے حلقہ ارباب ذوق ‘ کھوڑ کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے مجھے آج آپ کے سامنے حاضر ہونے اور کچھ کہنے کا موقع فراہم کیا۔ مجھے ان کی استقامت پر داد بھی دینا ہے کہ میرے مسلسل انکار پر ان کااصرار بڑھتا رہا حتی کہ بیچ میں کئی ماہ گزر گئے یہ تقریب آگے ہی آگے سرکائی جاتی رہی۔ اس عرصے میں مجھے یقین ہو چلا تھا کہ حلقہ والے کسی ایسے صاحب کمال اور خطبے کے رسیاشخص کو ضرور ڈھونڈھ نکالیں گے‘ جو جھٹ پٹ صدارتی خطبہ لکھنے اور ارشاد فرما دینے پر قادر ہوگا اور یوں میں صاف بچ نکلوں گا۔ مگر میرایقین مات کھا گیا‘ ان کی استقامت جیت گئی اور مجھے ہاں کہہ دینا پڑی۔میرے کترانے اور کنی کاٹ کر گزر جانے کی کوششوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں یہ سبب بھی موجود رہا ہے کہ ادب میں ‘ میںکسی بھی خطیبانہ کردار کو غیر تخلیقی عمل سمجھتا رہا ہوں۔ اب اگر آپ کو میری آج کی باتیں خطبہ کم اور مکالمہ زیادہ لگیں تو مجھے معاف کیجئے گا کہ مجھے یہی روش مناسب لگتی ہے۔ جب میں اپنی روش پر نکل کھڑا ہونے کو جائز قرار دے چکا ہوں تو آپ سے بھی امید رکھوں گا کہ جہاں جہاں آپ کو میری بات میں ٹیڑھ نظر آئے ‘ مجھے ترت ٹوک دیں گے کہ میرا نقطہ نظرآج کا صدارتی خطبہ ہوتے ہوئے بھی کسی آمر کا فرمان نہیں ہے۔خواتین و حضراتیوں ہی بے دھیانی میں آمر کا لفظ آگیا ہے تو کہتا چلوں کہ آمریت ہمیشہ دہشت کو ساتھ لے کر آتی ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ موجودہ عہد کو دانش وروں نے دہشت کا زمانہ کہا ہے۔ یہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں انسانی زندگی بے توقیر ہو گئی ہے۔ قوت اور پیدواری منابع پر قبضے کا چلن عام ہو چلا ہے۔ ملکوں پر یا تو براہ راست حملہ کر دیا جاتا ہے یا پھر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے عالمی سامراج ایسے ہی آمروں کو اپنا ہرکارہ بنا لیتا ہے۔ جنہیں دروازے پر پہرا دینا تھا جب وہی سامراج وفادار اور موئید ہوجائیں تو ایسے سانحات کو ہونے سے کون روک سکتا ہے جو ہمارے آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ عالمی اور داخلی سامراج کے گٹھ جوڑ سے متشکل ہونے والے دہشت کے اس زمانے نے ہماری حسیات کوبالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم خوف‘ نفرت‘ غصہ اور مایوسی کو الگ الگ محسوس کرنے اور بیان کر دینے پر قادر تھے اب یوں لگتا ہے ایسا ممکن نہیں رہا ہے۔ خوف کب نفرت میں ڈھلتا ہے اور نفرت کب غصے کے بعد مایوسی میں ‘ ہم چاہیں بھی کو ڈھنگ سے جان ہی نہیں پاتے۔ مسلسل ہراس نے آدمی سے اس کے حواس چھین لیے ہیں۔جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اسے محض حواس باختگی کا زمانہ ہی نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں زندگی کے لطف اور اس کے اندر موجود تخلیقیت کو لذت اور افادیت سے بدل لیا گیا ہے۔ جی صاف لفظوں میں کہوں تو یوں ہے کہ تخلیقی عمل جو انسانی زندگی کو ایک خاص لطف سے ہمکنار کرتا تھا وہ آج کے عہد کی بظاہر ترجیحات میں کہیں نہیں ہے۔ میڈیا کی مقبولت اور پھیلاو نے جس نمائشی اور لذیذ زندگی کومابعد جدیدیت والے جدید تر آدمی کے لیے نمونہ بنا دیا ہے اس نے تہذیبی اور اقداری نظام میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔یہ جو میں نے ایک ہی سانس میں تہذیبی اور اقداری نظام کے بعد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی طرف اشارے کر دیئے ہیں تو یہ بات اتنی سہولت سے کہہ دینے اور سمجھ لینے والی نہیں ہے کہ یہ تو1857 کی جنگ آزادی یا عظیم غدر کے ڈیڑھ سو سال کے بعد کا قصہ ہے جس میں زمانے نے کئی کروٹیں لے لی ہیں۔ میں اردو ادب کے باب میں ان ساری تبدیلیوں کی بات کر رہا ہوں جو سہج سہج اس میں آئیں اورانتہائی غیر محسوس طریقے سے اس عہد میں اس کا حصہ ہو گئیں جب ”خلقت خدا کی ‘ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘ ‘ کہہ کر قصہ سنایا جاتا تھا۔ یہ لگ بھگ ولیم فریزر کے مشہور زمانہ قتل کا زمانہ تھا‘جسے اب جاکے شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول کا موضوع بنا ڈالا ہے۔ ولیم فریزر کے قتل کا ذکر آیا تو اس جرم میں نواب شمس الدین کو پھنسانے کے جتن کرنے والے غالب کی طرف دھیان چلا گیا ہے جو غزل کو بالکل نئے ڈھنگ کا بناکر اس میں مزید اور فوری تبدیلیوں کی راہیں مسدود کررہا تھا۔ بعد کا وہ زمانہ جس میں خدا کی خلقت اور ملک براہ راست انگریز کے مکمل قبضہ قدرت میں چلا گیا تو ہم اس قابل ہوگئے تھے کہ ایک ساتھ اس سے نفرت بھی کریں ‘ اسے چاہیں اور سراہیں بھی۔ نفرت کا زہر تو ہمارے لوک قصوں میں اندر تک سرایت کر گیا مگر ہماری دانش کے نگہبان اس پر سر دھن رہے تھے کہ انگریز کیسی لگن سے ہمارے کلاسیکی سرمائے کو بہم کر رہا تھا ‘اس کے تراجم کا اہتمام کرکے اسے محفوظ کر رہا تھا۔ اس نیک کام کے پیچھے چھپے استعمار کے عزائم نہ اس وقت ہمیں سمجھ آتے تھے نہ اب سمجھ آتے ہیں۔ اس نا سمجھی اور کم فہمی میں ہم نے دہشت کے اس زمانے تک آتے آتے اپنے تہذیبی وجود کو پچکا کرناکارہ بنا ڈالا ہے۔میں جس تہذیبی وجود کا قصہ لے کر بیٹھ گیا ہوں اس کو بھلا کر میں تخلیقی عمل کے ساتھ جڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مانتا ہوں کہ یہ تہذیبی وجود ‘جو مجھے بہت محبوب ہے‘ بظاہر ہر کہیں اس اکتسابی شعور سے مات کھارہا ہے جسے دھونس دھاندلی اور زور زبردستی سے ہمارے تخلیقی وجود کہ حصہ بنانے کے جتن ہوتے رہے ہیں۔ تاہم میں یہ ماننے سے انکاری ہوں کہ اکتسابی شعور تہذیبی وجود سے مس ہوئے بغیر تخلیقی شعور میں منقلب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ تخلیقی عمل کے اس بھید سے آگاہ نہیں ہیں اور اپنے تہذیبی وجود کو تخلیقی واردات کے دوانیے میں حاضر رکھنے کے بھید سے آگاہ نہیں ہیں ان کے لیے تخلیقی عمل محض اور صرف ایک نئے متن کی تشکیل ہو گیا ہے۔ پرانے متون کی اکھاڑ پچھاڑ سے ظاہر ہونے والا ایسا متن جس میں معانی معطل ہوتے رہتے ہیں۔اس باب میں ہمارا تخلیقی تجربہ مختلف رہا ہے۔ .... کیسے ؟ اسے جاننے کے لیے مجھے کہہ دیناچاہیے کہ جن مغربی افکار کو ہم مشرقیت کا جزو بنانے پر تلے بیٹھے ہیں وہ کبھی بھی ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ حتی کہ ان میں اتنی سکت بھی نہیں ہے کہ یہ افکار ہماری کسی داخلی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ ہمارا داخل کائنات کی اس تعبیر کو مانتا ہی نہیں ہے جس کے اندر سے سارے بھید نکال کر باہر پھینک دیئے جائیں۔ ہمارے لیے تو سارا حسن مسافت اور تجسس میں ہے پرکھ کر کسی نتیجے پر پہنچ جانے میں نہیں۔ تسلیم کر لینے اور ایک بھید کو اپنی وسعتوں سمیت اپنے وجود کا حصہ بنا لینے میں جو لطف ہے وہ تجربہ گاہ میں لے جا کر کسی عظیم بھید کے بخیے ادھیڑ ڈالنے میں کہاں جس کے بعد کچھ ہاتھ نہیں آتا اور جھنجھنا نا آدمی کا مقدر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں زندگی محض وہ نہیں ہوتی جو ہمارے تجربے میں آتی ہے کہ وہ تو صرف ہستی کا فریب ہوتا ہے۔ زندگی تووہ بھی ہوتی ہے جو دیوار کے ادھر رہ جاتی ہے مگر جسے ہم تسلیم و رضا کے قرینے سے اپنے وجود کا بھید بنا لیتے ہیں۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا :
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدعالم تمام حلقہ دام خیا ل ہےاور یہ جو دام خیال والا عالم تمام ہے غالب کے یہی تمام عالم نہیں ہے کہ اس دشت امکاں کو تو وہ صرف ایک نقش پا سمجھتا ہے اور اپنی تمنا کا دوسرا قدم اسی بھید بھرے علاقے میں جادھرتا ہے جس کا علم اکتسابی نہیں بلکہ تہذیبی ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ شروع سے ہمارے ہاں کامل سطح پر تہذیبی شعور کبھی بھی کام نہیں کرتا رہا ہے اور یہ بھی مانتا ہوں کہ ابھی ہم پوری طرح اس جانب متوجہ بھی نہ ہو پائے تھے کہ ہماری تہذیبی زندگی میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی تھی۔ یہاں آپ کو مطالبہ کرنا چاہیئے کہ میں تہذیبی وجود کے حوالے سے جس زمانے کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوتا ہوں مجھے کے منفی رجحانات اور رخنوں کو بھی خاطر نشان رکھنا چاہیئے۔ آپ کا مطالبہ بجا اور یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عین اسی زمانے میں کہ ابھی بقول انتظار حسین ادب کا ناتا فطرت سے نہیں ٹوٹا تھا‘ فطرت سے بھی اور ماورائے فطرت سے بھی ‘ تو اس زمانے کا سیاسی نظام بہت گل سڑ چکا تھا۔ یہ نظام اتنا بوسیدہ اور بے کار ہو گیا تھا کہ اس کی سڑاندھ میںتہذیبی معاشرے کی سانسوں میں رخنے پڑ رہے تھے۔ یہ بھی ماننا ہو گا کہ ثقافتی انجماد نے مرے کو مارے شاہ مدار جیسا کام کر رہا تھا۔سارے میں جب وہ ثقافتی مظاہر ٹھٹک کر ٹھہر گئے جو تہذیبی علاقے میں توسیع اور تحرک کا باعث ہوتے تھے تو پورا معاشرہ ایک گہری تبدیلی کی ضرورت محسوس کرنے لگا تھا۔ اسے حقیقت مانتے ہوئے بھی میرا اصرار ہے کہ انگریز کی غلامی نے ہمیں جس نہج پر بدل کر رکھ دیا ہے اس نے ہمارے ہاں بحران کو شدید تر کر دیا ہے۔ ہماری اس بدلی ہوئی شخصیت کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا مابعدنوآبادیاتی ذہن ہند مسلم تہذیب کے روشن مظاہر کے ساتھ جڑنے کی راہ میں جا بجا رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا ہے۔خواتین و حضراتلطف یہ ہے کہ ان سارے رخنوں کے باوجود ہمارا تہذیبی لا شعور بہت بیدار رہا ہے۔ ہم اوپر سے یوں بدلتے رہے ہیں جیسے کوئی شوقین مزاج اپنے سیل کی سکن بدلتا ہے تاہم ہمارا باطنی ماڈل بہت ہد تک ہمارے تہذیبی وجود کے روشن مظاہر سے جڑا رہا ہے۔ دیکھئے اس باب میں افسانے کی مثال دی جاسکتی ہے جو قصے کہانی اور داستان کے اسلوب سے خارج میں ناتا جوڑے بغیر وجود میں آگیا تھا اور ہمارے ہاں خوب پھلا پھولا ‘ کبھی بیانیے کے روپ میں تو کبھی علامت کے سہارے اور پھر ان دونوں صورتوں کو بہم کرکے نئے تخلیقی جواز کے ساتھ اور وہ بھی یوں کہ اب عالمی افسانے کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ تاہم اس نے اندر ہی اندر ان بھید بھنوروں اور ان مابعد الطبعیاتی موضوعات کو بھی سمو لیا ہے جو مغربی کہانی کی دسترس میں سہولت سے جگہ نہیں پاتے رہے۔ غزل تو شروع سے تہذیبی مظہر تھی اس نے داستان کی طرح پسپائی گوارا نہ کی۔ اپنی ڈھب پر اپنی چھب دکھا کر چلتی رہیا۔ حسی سطح پر تھوڑا سا بدلی مگر یوں نہیں کہ اس کی جست کو صاف صاف ماپا جا سکے اور نئی تبدیل ہو چکی غزل کو میر اورغالب کی غزل کو پھاندکر پیچھے چھوڑ جانے والی غزل کہا جاسکے۔ سو مان لیں کہ یہ اب تک ہمارا تہذیبی مظہر چلی آتی ہے۔ داخلی اور معنیاتی سطح سے لے کرہیئت اور زباں بندی کے حوالے سے بھی۔ نظم کے باب میں ماننا پڑے گا کہ نہ بدلی اور اپنے تبدیل ہونے کا حق ادا کیا اقبال کے بعد راشد تک آتے آتے تو اس کا بدلنا صاف دیکھا جاسکتے۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ اس کے بعد بھی اس کا بھیتر تبدیلیوں کی زد میں رہا ہے۔ یہی معاملہ دوسری اصناف کا ہے مگر ذرا دھیان سے مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہو گا کہ عصری زندگی کے وہ تجربہ جو ہمارے تہذیبی لاشعور کے ساتھ جڑ جاتے ہیں وہی فی الاصل تخلیقی تجربے کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں اور جہاں جہاں اس تخلیقی تجربے کی بجائے اکتسابی تجربے کے زور پر کوئی فن پاری وجود پذیر ہوا ہے اس کی چکا چوند چاہے ایک زمانے میں خوب خوب محسوس کی گئی ہو وقت کی اگلی بارشو ں میں دھل جانے کے بعد ہمیشہ مردود ٹھہرتے رہے ہیں۔خواتین و حضراتیہیں یہ بات یاد دلانے کی ہے کہ تہذیبی تشخص کبھی بھی مکمل اور مطمئن نہیں ہوا کرتا۔ یہ ایسی مستقل عبارت نہیں ہے کہ جسے اپنے گھر کے صدر دروازے کی تختی پرسجا کر اپنی شناخت مستحکم کرلی جائے اور نہ ہی یہ گھر کے پچھواڑے کا ایسا کمرہ ہوتا ہے جس میں کاٹھ کباڑ ڈال دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک تو تہذیبی تشخص ہمہ وقت مضطرب رہتا ہے اور ہمیشہ اپنی تکمیل کے لیے موافق مواد تلاش کرکے اپنے وجود کا حصہ بناتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تہذیبی تشخص کی جلد کے وہ خلیے جو مردہ ہو چکے ہوتے ہیں‘ جھڑ کر مسلسل الگ ہوتے رہتے ہیں۔ یہی تہذیبی تشخص ‘تخلیقی تجربے کا لازمہ ہے۔ وہ ناقدین جو اس بھید بھری کائنات کے مقابل ہوئے بغیر مغربی اصطلاحات کے کلاوے بھر بھرکر اردو کے دامن میں ڈال رہے ہیں میرے لیے بہت اللہ لوک ہیں۔ کئیوں کے نزدیک یہ ادبی خدمت ہوگی مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان میں سے بیشتر اصطلاحات کو اپنے اجتماعی تخلیقی تجربے کے احاطے سے باہر پاتا ہوں۔ یہ بھی ان ناقدین کا المیہ ہے کہ یہ اس بنیادی فکر سے جڑے بغیر ان اصطلاحات کو اردو میں ڈھالنے کا فریضہ سرانجام دینا چاہتے ہیں ‘جو ان کے عقب میں کام کر رہی ہوتی ہے۔ اپنے تہذیبی تجربے کی بات میں کر چکا ہوں اوریہاں مجھے یہ بتانا ہے کہ امریکی سامراج نے اپنی فکری توسیع پسندانہ کوششوں کو تقویت دینے کے لیے جن ادبی تھیوریوں کو ہمارے ادبی نظریات کا حصہ بنانا چاہا ہے وہ ان کے ہاں کسی نہ کسی سطح پر اپنی کارکردگی دکھا کر بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ خود امریکہ کا یہ معاملہ رہا ہے کہ وہاں جب روشن فکری کی تحریک چلی یا بعد ازاںان کی حسیات میں سائنسی اور صنعتی ترقی نے حک و اضافے کیے تھے تو اس نے ان کے وجود کے کئی خلاوں کو پاٹ دیا تھا۔ اس مقام پر مناسب ہوگا کہ ایڈورڈ سعید کے معروف مضمون The Clash of Definitions کا حوالہ دے دوں کہ اس میں اس نے بتایا تھا کہ امریکہ میں یہ بحث کہ کس شے کو امریکی کہا جائے ڈرامائی تبدیلیوں سے دوچار رہی ہے۔ بقول ایڈورڈ سعید جب وہ جوان ہو رہا تھا تو اس زمانے میں ویسٹرن فلم امریکہ کے اصلی باشندوں کو لعین ابلیس کی شکل میں دکھاتی تھی جنہیں یاتو مار ڈالنا لازم تھا یا پھر غلام بنا لینا۔ انہیں ریڈ انڈینز کہا جاتا تھا۔ یہ تھی امریکہ کی اصلی تہذیب۔ لہذا ماضی ان کے لیے ناسور تھا جس کے لیے ایسی ادبی تھیوریوں کو تلاش کیا جانا ضروری خیال کیا گیا جو چاہے فرانس ‘الجیریا یا کہیں وجود میں آئی ہوں ‘ان کی ضرورتوں کو پوری کرتی ہوں اور تہذیبی ماضی کومتن سے کاٹ سکتی ہوں۔ انہیں نہ صرف مستقل معنی بلکہ اس کے مصنف کے وجود سے الگ کرکے پچھاڑ سکتی ہوں۔ وہ تھیوری ہو یا اینٹی تھیوری مگر اس کے ذریعے پرانے زمانے کے بدمعاش ریڈانڈین کو نئے زمانے میں باسٹرڈ اور دہشت گرد ہوکر بھی مہذب کہلایا جا سکے۔ وہ چاہے تو جمہوریت اور آزادی کے نام پر قوت کے منابع اور پیداواری ذرائع پرقابض ہو جائے مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زور پر جسے نجات دہندہ تسلیم کرایا جاسکے۔ یاد رہے سماج‘ جس متن کو میڈیا کے پروپیگنڈے کے زیر اثر حقیقی سمجھے گا‘ وہ نئی تھیوری میں حقیقت ہو گی اس نئی بنائی گئی حقیقت میں تخریبیت ہے‘ بکھراوہے اور اس میں کارکردگی پر زور دیا جاتا ہے۔تو یوں ہے خواتین و حضرات‘کہ دہشت کے اس زمانے میں جب میں اپنے تخلیقی وجود کے ساتھ جڑنے کی بات کر تا ہوں تو دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک سچے تخلیق کار کا باطن بہر حال اپنے تہذیبی وجود کی طرف لپکتا ہے۔ اس تہذیبی وجود کی طرف جو تاریخ‘روایت اور کلاسیکی مظاہر کے ساتھ جڑا ہو اہوتا ہے۔ تہذیبی وجود کے ساتھ یوں جڑنے سے تخلیقی عمل کے دوران زبان اپنا اکہرا معنوی نظام ترک کرکے اندر سے گداز ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے تہذیبی ورثے اور روایت کے اثاثے سے گہرے معنیاتی سلسلے اورتخلیقی بھید بھنورکشید کرکے اسے متن کی جمالیاتی داخلیت کے طور پر نہ صرف قبول کرتی ہے ‘متن کو تخلیق کے منصب جلیلہ پر فائز بھی کرتی ہے۔ اس عمل کے دوران عام زبان تہذیبی علامت کا منصب ادا کرنے لگتی ہے جس میں بنیادی معنیاتی نظام معطل ہونے کی بجائے معنیات‘اظہار اور ابلاغ کے توسیعی علاقے دریافت ہوتے ہیں۔ یہ بالعموم ایسے بھیدوں بھرے علاقے ہوتے ہیں جو الفاظ کی گرفت میں نہیں آتے اور بیان کی قوت سے ورا ہوتے ہیں۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ زبان اس تخلیقی عمل میں ‘رواجی نشانات سے اوپر اٹھ کر حقیقت کے ایک مرتبہ وجود کو اس کے برتر مرتبہ وجود سے جوڑ دیتی ہے۔اب ایک چبھتا ہوا سوال کہ آخر ہم کب تک اوروں کے چبائے ہوئے تنقیدی لقمے چبانے کو ادبی تنقید گردانتے رہیں گے؟۔ کب تک اپنے تخلیقی وجود کی صداقتوں سے الگ رہیں گے؟؟ اور کب تک سادہ متن کاری کی مشقت کو ہی تخلیقی عمل قرار دیتے رہے گے ؟؟؟ ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔ اجازت چاہوں گا تاہم امید رکھتا ہوں کہ میری باتوںسے خوب خوب اختلاف کیا جائے گا کہ اخلاص نیت کے ساتھ اختلاف ہی سے ادبی مکالمے کو آغاز ملتا ہے۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment